The Shadow of Mercy

A Tale of Forgiveness and Transformation :

Photo by Mantas Hesthaven on Unsplash

Adam was identified by his anger, aggressiveness, and his wrongdoings in a beautiful village. Everyone seemed to despise him due to his misdeeds, and even his closest friends distanced themselves from him. Unfortunately, his parents passed away when he was just 13 years old. This tragic event plunged him into a deep darkness, as he lacked the support and guidance that parents provide. In addition, he fell in love with a beautiful girl who may have shown some interest in him, but like everyone else, she too refused to marry him. But Adam’s wrongdoings and sins were overshadowed by his pure love for her. He did everything in his power to make that girl happy and satisfy her to the point of marriage. However, as time went by, she started to despise him due to his attitude. One day, she shouted, "Oh, you worthless person, if even God doesn’t love you, how can I?" After the echoes of her hurtful words faded away, people stopped seeing him. As weeks passed, news spread that Adam had taken his own life due to the girl’s rejection. People criticized him, calling him a sinner and questioning how he would face God. That’s how and why he committed suicide.
But that was merely the perception people had of him, not the reality. In actuality, miles away on a rocky hill with long hairs and brown beard he patiently awaited the mercy of God. He would shout out, sometimes even resorting to beating himself in despair. He had no knowledge of the teachings of Quan Sharf, but he knew one word, which he repeatedly uttered with his tongue, "God, forgive me. You are merciful." Some villagers sought him out, and he pleaded to God, saying, "My Lord! People disregard me, they don’t care! (screaming) They hate me because of my past and my wrongdoings. My Lord! Do you also hatred towards me? (weeping)-"
After the scream and weeping, his beard got wet and he fell to the ground due to sadness and guilty. When he opened his eyes, he saw Imam Younus standing in front of him. Adam stood up and moved towards the Imam, falling at his feet. He said, "I apologize to God! But despite seeking His forgiveness, I haven’t received an answer." Imam Younus gently lifted Adam and replied, "If God didn’t intend to forgive you, why would He have sent me to you?" Imam then shared a story about a dream he had received from God, which was a sign of Adam’s redemption. Both the Imam and Adam climbed down from the hill and began walking towards the village. As they approached, Adam hesitated, knowing that people would only hate him more.
Imam asked, "Do you want to make people happy or please God? If it’s the people, then go back. But if it’s God, come with me to the mosque." Adam hesitated, but ultimately decided to go with the Imam. As they walked, the sun began to set, casting a red hue. When they entered the village, people gathered around them, some shouting angrily and saying, "God has long abandoned you! You have no right to speak to him. Go back!" Ignoring the negativity, both Adam and the Imam proceeded into the mosque. After half an hour, Adam came out from the mosque wearing a green turban and holding the Quran Sharif in his hands.

As weeks passed, people started to show love towards Adam. One night, Adam was wandering the streets with a rope in his hand. The girl who had previously rejected his proposal approached him with a sense of guilt and allowed him to marry her. However, Adam replied, "I believe in repentance. I used to love people, but now I love my Lord because He loves me unconditionally, without counting my deeds. He is not like you."

(Imam Adam moved towards the Mosque)

In urdu::::

آدم کو ، تشدد اور اس کے گناہوں کی وجہ سے ایک خوبصورت گاؤں جو لینڈ-پیپل کہلاتا تھا، میں پہچانا گیا۔ آدم کے برا سلوکوں کی وجہ سے سب اسے نفرت کرتے تھے اور اس کے قریبی دوست بھی اس سے دور رہتے تھے۔ بدقسمتی سے، اس کے ماں باپ کی موت اس لمحے ہوئی جب وہ صرف 13 سال کا تھا۔ یہ تکلیف ناک واقعہ اسے گہری تاریکی میں ڈال دیا کیونکہ اسے والدین کی حمایت اور راہنمائی کی کمی محسوس ہوئی۔ علاوہ ازیں، اس نے ایک خوبصورت لڑکی سے محبت کی تعلق رکھی، جو شاید اسے دلچسپی دکھا رہی تھی، لیکن دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیتی تھی۔ لیکن آدم کے گناہوں اور خطاؤں کی روشنی میں اس کی محبت کا سایہ ڈال دیا گیا تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کو خوش رکھنے اور اس کی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔ مگر وقت گزرتے گیا تو اس کی اوٹ بھڑکنے لگی اس کے رویے کی وجہ سے۔ ایک دن، وہ چلی بھڑکتے ہوئے کہا، "اے بے وقعت شخص، اگر خدا بھی تم سے محبت نہیں کرتا تو میں کیسے کروں گی؟" اس دردناک بات کے صداوں کے بعد لوگوں نے اسے دیکھنا بند کر دیا۔ ہفتے گزرنے کے ساتھ ساتھ خبریں پھیل گئیں کہ آدم نے لڑکی کی انکار کی وجہ سے خودکشی کر لی ہے۔ لوگ اس پر تنقید کرتے رہے، اسے گناہگار کہتے رہے اور سوال کرتے رہے کہ وہ خدا کے سامنے کیسے چلے آدم کا رویہ صرف لوگوں کی تصورات تھا، حقیقت نہیں۔ حقیقت میں، دور دراز پتھروں بھرے پہاڑ پر بیٹھ کر وہ صبر سے خدا کی رحمت کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ کبھی کبھار چیختا، کبھی توڑتا تھا اپنے آپ کو ہارے ہوئے۔ اسے قرآن شریف کی تعلیمات کا علم نہیں تھا، لیکن اسے ایک لفظ کا علم تھا، جسے وہ اپنی زبان سے بار بار بولتا رہتا تھا، "خدا، مجھے بخش دے۔ تو رحم کرنے والا ہے۔" کچھ گاؤں والے اسے تلاش کرتے رہے، اور وہ خدا سے التجا کرتا رہا، کہہتے ہوئے، "میرے رب! لوگوں نے مجھے نظر انداز کیا ہے، وہ فکر نہیں کرتے! (چیختے ہوئے) وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں میرے گزشتہ اعمال اور غلطیوں کی وجہ سے۔ میرے رب! کیا تم بھی مجھ سے نفرت کرتے ہو؟ (روتے ہوئے)-"
چیخ کر رونے کے بعد، اس کی داڑھی بھیگ گئی اور وہ افسوس اور افسوس کی وجہ سے زمین پر گر پڑا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں، تو وہ امام یونس کو اپنے سامنے کھڑے دیکھا۔ آدم کھڑا ہوا اور امام کی طرف چل پڑا، اس کے پاؤں کے نیچے گر گیا۔ اس نے کہا، "میں خدا سے معافی مانگتا ہوں! لیکن اس کے باوجود کہ میں اس کی بخشش طلب کرتا رہا، مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔"
"عمامہًٌ یونس نے آدم کو پیار سے اٹھایا اور جواب دیا، "اگر خدا نے تمہیں معافی دینی نہیں چاہی تھی تو پھر مجھے تمہارے پاس بھیجتا کیوں؟" امام نے پھر خدا کی طرف سے ایک خواب کی داستان سنائی، جو آدم کی نجات کی نشانی تھی۔ عمام اور آدم دونوں پہاڑی سے نیچے اتر کر گاؤں کی طرف چلے لگے۔ جب وہ نزدیک آئے، آدم ہچکچا گیا، جانتا تھا کہ لوگ اسے اور بھی نفرت کریں گے۔

عمام نے پوچھا، "تم لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہو یا خدا کو خوش کرنا؟ اگر لوگوں کو تو واپس جاؤ۔ لیکن اگر خدا کو تو میرے ساتھ مسجد آو۔" آدم ہچکچا گیا، لیکن آخر کار عمام کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ چل رہے تھے، سورج ڈوبنے لگا اور سرخ رنگ کا منظر پیدا ہوا۔ جب وہ گاؤں میں داخل ہوئے، لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو گئے، کچھ غصے سے چیختے ہوئے کہا، "خدا تمہاری طرف سے دور ہوچکا ہے! تمہیں اس سے بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ واپس جاؤ!" نفرت کو نظرانداز کرتے ہوئے، آدم اور عمام دونوں مسجد کی طرف جاری رہے۔ آدم نے نصف گھنٹے بعد مسجد سے نکل کر ہرے رنگ کے عمامہ پہنا اور قرآن شریف کا حامل ہو کر باہوں میں لے آئے۔

ہفتوں گزرنے کے ساتھ، لوگوں کا دل آدم کی طرف محبت کا اظہار کرنے لگا۔ ایک رات، آدم شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ پہلے ۔ وہ لڑکی جس نے پہلے اس کے رشتے کی پیشکش کو مسترد کیا تھا، اس کے پاس ایک احساسِ افسوس کے ساتھ نزدیک آئی اور اجازت دی کہ وہ اس سے شادی کرے۔ لیکن آدم نے جواب دیا، "میں توبہ پر ایمان رکھتا ہوں۔ پہلے میں لوگوں سے محبت کرتا تھا، لیکن اب میں اپنے پروردگار سے محبت کرتا ہوں کیونکہ وہ میرے کاروں کا حساب نہیں کرتا۔ وہ تم جیسا نہیں ہے۔"

--

--

𝘔𝘶𝘨𝘩𝘦𝘦𝘴 𝘸𝘳𝘪𝘵𝘦𝘴
Magical Reading

𝑺𝒆𝒏𝒊𝒐𝒓 𝑽𝒊𝒄𝒆 𝑷𝒓𝒆𝒔𝒊𝒅𝒆𝒏𝒕 𝒍𝒊𝒕𝒆𝒓𝒂𝒓𝒚 𝒔𝒐𝒄𝒊𝒆𝒕𝒚 𝑲𝒎𝒄𝒃