Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
Sent as a

Newsletter

7 min readApr 8, 2022

--

اڑتی چڑیا کے پر گننا

Read more on Ustaadian.com

بہتر فارمیٹنگ کے ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

بابا جی اپنے شاگر کے ساتھ پشاور سے مردان کا سفر کر رہے تھے۔ شاگرد نے حال ہی میں مرغیاں پالنے کا کاروبار شروع کیا تھا، اور اس سلسلے میں نئے سائنسی علوم کو سامنے رکھتے ہوئے آٹومیٹک شیڈ بنائے تھے۔ ایک دن اپنے نئے کاروبار کا ذکر کرتے ہوئے اُس نے بابا جی کی اٹینشن اپنی طرف دیکھ کر انھیں مرغی فارم دکھانے کا وعدہ کیا تھا اور آج وہی وعدہ پورا کرنے جا رہا تھا۔

بابا جی نے فارم ہائوس پہنچ کر کچھ دیرآرام کیا۔ شاگرد فکر مند تھا کہ بابا جی کہیں مرغیوں کی بوسے الجھن نہ محسوس کر رہے ہوں۔
بابا جی نے کسی قسم کا تکلف رکھنے سے منع کیا۔

ابھی بابا جی بیٹھے ہی تھے، کہ شاگرد کے فون کی گھنٹی بجی۔ شاگرد نے اجازت لے کر فون پر بات کی، وہ باتوں باتوں میں آج کوئی کام ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ بابا جی کو بھی دیکھ رہا تھا۔

بابا جی نے اشارہ کیا، اور شاگرد نے موبایل میوٹ کر دیا۔ بابا جی بولے۔
“بیٹا! میرا تکلف کرنے کی بجائے کام پر دھیان دیں، اگر کام ضروری ہے تو اُسے آج ہی نپٹا لیں”۔

شاگرد نے بابا جی کی بات سنتے ہی دوسری طرف شخص کو ملنے کی حامی بھر لی۔

فون رکھتے ہی شاگرد نے تفصیل سے بتایا کہ۔
“ہم تیسرے شیڈ میں مرغیوں کا نیا سٹاک ڈال رہے ہیں۔ اور اسی سلسلے میں ایک لوکل کمپنی نے چوزے دینے کا کنٹریکٹ لیا ہے۔ ان کا چوزوں کی جنس جاننے والا ایکسپرٹ آج جاپان سے آ رہا ہے۔ اور وہ ہمارے سامنے اپنی فیکٹری میں چوزوں کی چھانٹی دکھانا چاہتے ہیں۔ “

بابا جی کو شاگرد کی بات بڑی حیرت انگیز لگی۔ چوزوں کی جنس جاننے کا ایکسپرٹ، یہ کیا معاملہ ہے۔ بابا جی نے جب شاگرد کو اس معاملے میں اپنا انٹرسٹ بتایا تو شاگرد بولا۔
چوزہ اپنے مرغی یا مرغا بننے کا عندیہ چھ ماہ کی عمر کے بعد واضح طور پر دینا شروع کرتا ہے۔
پہلے یہی معیار ہوتا تھا۔ پھر جاپانیوں نے کمال کر دیا۔
انھوں نے اپنی بہترین ریسرچ کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک اعلٰی معیار قائم کیا جس کی وجہ سے آپ چوزوں کی جنس ان کی پیدائش کے شروع کے دنوں میں ہی معلوم کر لیتے ہیں۔

آئیے آپ کو دکھاتے ہیں۔

یہ دیکھتے ہی وہ دونوں ایک فیکٹری میں داخل ہوگئے جہاں ان کی ملاقات فیکٹری کے مالک ، ان کے ساتھ کام کرنے والے اور جاپانی ماہر سے ہوئی۔

وہاں پر موجود کسی کو جاپانی تو کیا انگلش بھی ٹھیک سے نہیں آتی تھی۔ اور دوسری طرف جاپانی کو انگلش بالکل بھی نہیں آتی تھی۔

فیکٹری کے مالک نے ہاتھ سے جاپانی مہمان کو اشارہ کیا، اور وہ ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

وہ جاپانی ماہر کو فیکٹری کے ایک حصے میں لے گئے جہاں ایک پٹڑی چل رہی تھی، جس پر قطار در قطار چوزے تیزے سے آ رہے تھے، اور ایک آدمی دونوں ہاتھوں میں ایک ایک چوزہ پکڑتا ، اور سیکنڈ سے بھی کم میں انھیں دو مختلف باسکٹس میں ڈال دیتا۔
ہمیں آتا دیکھ کر پٹری کے چلانے والے نے مکینکی آلے کو روک دیا۔

فیکٹری کا لوکل ماہر ، جاپانی ماہر کو دیکھ کر منہ بناتے ہوئے سائیڈ پر ہو گیا۔

بابا جی نے جاپانی میں کچھ کہا، اور جاپانی ماہر آگے بڑھ کر لوکل ماہر کی جگہ بیٹھ گیا۔

آج ہمیں دو لاکھ چوزوں کی ڈلیوری کرنی ہے۔ ہمارا لوکل ماہر صبح سے بیٹھا ہوا ہے، اور اُس نے ماشاءاللہ سے 1 لاکھ چوزے چھانٹی کر لئے ہیں۔ اب ہمیں اگلے 4 گھنٹوں میں باقی کے ایک لاکھ چوزوں کی چھانٹی کر کے گوشت اور انڈوں والے فارم کو الگ الگ فراہم کرنے ہیں۔

لوکل ماہر نے جیلس ہو کر کہا،
“ میں نے آج ریکارڈ پرفارمنس دکھا کر 1 لاکھ چوزے 3 گھنٹے اور 40 منٹ میں الگ کئے ہیں ۔ اور میں پچھلے تمام سپلائی کے مطابق 10 میں سے صرف ایک چوزہ کی جنس غلط چنتا ہوں”۔

دیکھتے ہیں یہ جاپانی اسے کیسے کرتا ہے۔

بابا جی نے سلیقے سے لوکل ماہر کی بات جاپانی کے سامنے ٹرانسلیٹ کر دی۔

جاپانی ماہر مسکرا دیا۔ اور سر جھکا کر عزت سے لوکل ماہر کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

پھر وہ اپنی جگہ سے چھانٹی کرنے والی سیٹ کی طرف بڑھا۔۔
اور سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے بابا جی کی طرف دیکھ کر جاپانی زبان میں کچھ کہا۔

بابا جی نے ترجمہ کیا۔

جاپانی ماہر کہہ رہے ہیں کہ جب وہ اشارہ کریں تو آپ مشین کی سپیڈ ایڈجسٹ کر دیجئے گا۔

بابا جی کی بات ختم ہوتے ہی جاپانی ماہر سیٹ پر بیٹھ گیا، اور مشین چالو ہو گئی۔ اُس نے ہاتھ کا اشارہ نیچے کو کر کے مشین کے ماہر سے سپیڈ ہلکی کرنے کو کہا۔ اب بیلٹ آہستہ آہستہ ایک ایک چوزہ جاپانی کے سامنے لا رہی تھی، اور ایک بچہ کی طرح ہلکے ہلکے انداز میں ایک ایک چوزہ اٹھا کر اُسے غور سے دیکھتا اور پھر اُس کی جنس کے مطابق منسلک ڈبہ میں ڈال دیتا۔

فیکٹری کا مالک کسی چمتکار کا انتظار کرتے ہوئے کچھ منٹ جاپانی ماہر کو دیکھتا رہا۔ لیکن جب جاپانی ماہر نے اپنی سپیڈ نہ تیز کی تو وہ انتہائی غصہ اور مایوسی کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔

باقی سب بھی بابا جی کے ساتھ باہر کو چل دئے۔ بابا جی نے جاپانی ماہر کو اشارہ کیا، اور جواب میں جاپانی ماہر نے کچھ بول کر دو انگلیوں کا اشارہ کیا۔

بابا جی مسکراتے ہوئے سب کو لے کر باہر چلے گئے۔ وہ سب اکٹھے باتیں کرتے ہوئے سامنے کیفے کی طرف چلے گئے اور وہاں بیٹھ کر چائے پینے لگے۔

لوکل ماہر اپنے قصے سنا سنا کر سب کو پکا رہا تھا۔ وہ انتہائی خوش تھا کہ جاپانی ماہر کچھ خاص نہیں تھا۔

باتیں کرتے کرتے کچھ وقت بیت گیا۔ تو لوکل ماہر نے گھڑی دیکھی، قریباً ایک گھنٹے سے تھوڑا زیادہ وقت بیت گیا تھا۔

میرا خیال ہے ہزار چوزے تو کر لئے ہوں گے۔۔ مجھے چلنا چاہئے باقی کے 99 ہزار شائد مجھے ہی کرنا پڑیں۔
بابا جی نے مسکراتے ہوئے ایک اور چائے کا آرڈر کیا اور ساتھ میں سموسے لانے کو بھی کہہ دیا۔

مجھے ذرا بھوک لگ رہی تھی، تھوڑی دیر میں ویسے بھی واپس جانے کی تیاری کرنی پڑے گی، سوچا سموسہ پلیٹ ہی ہو جائے۔

بابا جی کی طرف سے سموسہ پلیٹ اور چائے کی آفر سنتے ہی لوکل ماہر رُک گیا۔ انھوں نے مشکل سے اپنی سموسہ پلیٹ ختم کی ہو گی کہ مشین کا آپریٹر بھاگتا بھاگتا ان کی طرف آیا۔

بابا جی نے دور سے ہی مشین آپریٹر کو دیکھ کر کپڑے جھاڑے اور کھڑے ہو گئے۔ لوکل ماہر انھیں دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔

مشین آپریٹر بھاگتا ہوا سیدھا بابا جی کے پاس آیا۔ اُس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ وہ کچھ بولنے کو ہی تھا کہ لوکل ماہر کو دیکھ کر اُس نے بڑے سے دانت نکالے۔

وہ آپ کو جاپانی ماہر بلا رہے ہیں۔

سب بھاگتے بھاگتے جب فیکٹری کے اُس حصے میں پہنچے جہاں وہ جاپانی ماہر کو چھوڑ گئے تھے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ مشین اپنی فل سپیڈ پر پہلے سے چار گنا سپیڈ پر چل رہی تھی۔ اور جاپانی ماہر کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔

مشین آپریٹر نے بولا۔۔
جناب انھوں نے تو قریباً گھنٹے میں ہی سارا لوڈ ختم کر دیا ہے۔

لوکل ماہر کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ اُس نے مشین آپریٹر کو آخری دوسو چوزوں پر مشین روکنے کا کہا اور پھر جاپانی ماہر کے سامنے بیٹھ گیا۔
ایک چھوٹا سا مقابلہ کرتے ہیں۔
میں اور جاپانی ماہر آخری دو سو چوزوں پر باری باری کام کریں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کون کس قدر مہارت، کم وقت اور صحیح جنس کی تشخیص کرتا ہے۔

جاپانی ماہر نے لوکل ماہر کو پہلے کوشش کرنے کی دعوت دی۔

لوکل ماہر نے 13 منٹ میں تمام چوزیں چھان لئے یہ اب تک اُس کا سب سے بہترین ریکارڈ تھا۔

جب جاپانی ماہر نے چھانٹی شروع کی تو سب حیران اور پریشان ہو کر اُسے دیکھنے لگے۔
اُس نے سو چوزے 4 منٹ سے بھی کم وقت میں چھانٹ دیئے ۔ جب دونوں نے ایک دوسرے کے چوزوں کی چھانٹی پر غور کیا تو کسی نے دوسرے کی ایک بھی غلطی نہیں نکالی۔

لوکل ماہر اپنے نئے ریکارڈ اور غلطی نہ کرنے پر بہت خوش تھا۔ اور اب اُس کی جیلسی جاپانی ماہر سے عقیدت میں بدل گئی تھی۔
اُس نے کھلے دل سے جاپانی کی مہارت تسلیم کرتے ہوئےاُس کے سامنے تعظیماً سر جھکایا۔
جاپانی ماہر نے مسکراتے ہوئے اپنا سر بھی جھکا لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو بار نشانہ لگایا اور سو بار ہی نشانے پر لگا
یہ چائنہ کی تہذیب کا مشہور محاورہ ہے، اور اردو میں اس کا متبادل اڑتی ہوئی چڑیا کے پر گننا ہے ۔

اس محاورے کو کسی شخص کی مہارت ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، یہ محاورہ خاص طور پر اُس شخص کے لئےاستعمال ہوتا ہے جو ایک کے بعد ایک مرحلے پر تمام معمالات پر سو فیصدی درست پیشن گوئی کرتا ہے۔ ایسے حضرات اکثر سیاست یا بزنس میں پائے جاتے ہیں۔

تیرا دھیان کدھر ہے؟

تیرا دھیان کدھر ہے؟ کھٹے میٹھے طنز و مزاح سے بھرپور مضامین کا مجموعہ جو آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ بچار کا سامان بھی مہیا کرے گا۔

دیئے گئے لنک پر کلک کرکے ابھی کتاب آرڈر کریں

میرا قصّہ

کتابیں

اگلے ہفتے پھر حاضر ہوں گے ایک نئی کہانی کے ساتھ

اجازت دیجئیے گا

حبیب احمد نور

ہر ہفتے نیوز لیٹر حاصل کرنے کے لئے اپنا ای میل
پر رجسٹر کروائیں۔ ustaadian.com

اگر آپ لطف اندوز ہوئے ، تو اس نیوز لیٹر کو ٹویٹر ، فیس بک ، لنکڈ ان ، یا ای میل کے ذریعے شیئر کریں۔

یا نیچے دیئے گئے لنک کو کاپی اور پیسٹ کر کے شیئر کریں

https://mailchi.mp/ustaadian/7-april

--

--