Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
Sent as a

Newsletter

6 min readFeb 14, 2022

--

شیر کے بچے کو پکڑنے کے لئے آپ کو شیر کے گھر میں گھسنا پڑے گا

Read more on Ustaadian.com

بہتر فارمیٹنگ کے ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

خطرہ لینے کی صلاحیت کو لے کر بڑی مشہور چینی کہاوت ہے کہ شیر کے بچے کو پکڑنے کے لئے آپ کو شیر کے گھر میں گھسنا پڑے گا۔ بابا جی اپنے شاگردوں کو خطرہ لینے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بارے میں بتا رہے تھے۔

سر! میں آپ سے تھوڑی وضاحت چاہوں گا۔ ہم آج کل ہر جگہ پڑھ رہے ہیں کہ خطرہ لو گے تو ریوارڈ ملے گا۔ کامیاب لوگ خطرہ لیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، کامیاب لوگ دراصل خطرہ مول لے کر اکثر ناکام ہوتے ہیں۔ وہ بار بار خطرہ لینے سے ایک تجربہ حاصل کرتے ہیں اور آخرکار ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ون فائنل رسک لینا اُن کو خطرہ نظر نہیں آتا۔ اوریہی ان کی کامیابی کی وجہ بنتا ہے۔ شاگرد نے کہا۔

باباجی اور محفل میں بیٹھے تمام لوگ شاگرد سے متاثر نظر آ رہے تھے۔ بابا جی اثبات میں سر ہلا تے ہوئے مسکرائے۔ شاگرد نے اپنی بات جاری رکھی۔

لیکن سر! میں ایک ڈرائیور کا بیٹا ہوں، اور میرے دوست کے ابا بحریہ میں کلرک ہیں۔ یہاں ایک دو کے علاوہ تقریبا سبھی لوگ ایسے ہیں جنھیں ساری عمر خطرہ لینے اور بڑا سوچنے سے روکا جاتا رہا ہے۔ خطرہ لینے کےلئے کچھ گرائونڈ تو چاہئیے ہوتا ہے۔ اگر کچھ کرنے کا سوچیں تو آگے سے سوال آتا ہے، تو کون ہے، کون ہے تو؟ شاگرد نے کہا۔ وہ تھوڑا جذباتی نظر آ رہا تھا۔

کل میں آپ کے پچھلے لیکچر میں خطرہ لینے کے بارے میں ابو کو بتا رہا تھاکہ مجھے کاروبار کرنا چاہئے۔ وہ بولتے ہیں کہ یہ خطرہ لینا تجھے کہیں بھی نہیں لے جائے گا۔ کتنا پیسہ پھونکا ہے تیری پڑھائی میں۔ شاگرد ایک لمحے کو خاموش ہوا۔

جب ساری زندگی آپ کو شیر سے اتنا ڈرایا جاتا ہے، تو وہ شیر نہیں رہتا، ایک بڑی سی بلاں بن جاتا ہے، ایسے میں کامیاب انسان بننے کے لئے ہم بار بار شیر کا بچہ اٹھانے کے لئے کیسے ؟۔۔۔ اُس کے گھر میں کیسے گھسیں؟ ہمت چاہئیے بابا جی۔
کیا ایک ڈرائیور کے بیٹے میں، یا ایک کلرک کے بیٹے میں ایسی ہمت ہے؟ شاگرد ,اُس کا دوست، اور محفل میں بیٹھے سبھی لوگ سوالیہ نظروں سے بابا جی کو دیکھ رہے تھے۔

میں آپ سے بالکل متفق کرتا ہوں۔ آپ کے حالات اور گھر میں پیدا ہونے والی صورتِ حال قابلِ توجہ ہے۔ اپنے بڑوں کو اُن کے تجربے سے ہٹ کر امکانات کی دنیا دکھانا، سمجھانا، اور پھر متفق کروانا انتہائی محنت طلب کام ہے۔
اور جیسے آپ نے کہا کہ ہمت چاہئیے،خطرہ لینے کی ہمت کیسے پیدا کریں۔ خود میں خطرہ لینے کی صلاحیت پیدا کرنے کا کوئی شارٹ کٹ تو نہیں ہے میرے پاس۔ بابا جی نے کہا۔ شاگرد بابا جی کی بات سن کر تھوڑا ڈاون ہوئے۔

اگر اجازت دیں تو ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ ہمارے موجودہ موضوع سے ہٹ کر ہے، لیکن امید ہے کہ میں آپ کو اپنا نقطہ نظر سمجھا سکوں گا۔ بابا جی نے پوچھا۔

جی ضرور! میرا مقصد سب کو ڈاون کرنا نہیں تھا۔ شاگرد ،جس نے اپنا مدعا بیان کیا تھا، معذرت خواہانہ نظر آرہا تھا۔

شکریہ بیٹا! آپ نے دراصل اس پوری ڈسکشن میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ بابا جی نے شاگرد کو ہمت دلائی۔

1982 میں امریکہ کے ایک شہر میں اڑتے ہوئے جہاز میں کچھ فن خرابی پیش آ گئی۔ پائلٹ کے پاس آخری راستہ یہی بچا تھا کہ وہ دریا کے اندر کریش لینڈنگ کر لے۔ لینڈنگ اچانک تھی۔ جہاز بری طرح سے دریا میں گرا، اور کچھ ہی دیر میں اُس کے ٹکڑے دریا میں ادھر ادھر نظر آنے لگے۔ بابا جی نے کہا۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے ادھر ادھر پھیلے ہوئے ٹکڑوں کی تفصیل بتا رہے تھے۔

زخمی حالت میں مسافر دریا میں بکھرے ہوئے جہاز کے ملبے پر خودکو ڈوبنے سے بچا رہے تھے۔ بابا جی کے لہجے میں اداسی تھی۔

قریب ہی ائیر پورٹ سے ہیلی کاپٹر اڑے۔ پہلے ہیلی کاپٹرنے زخمی مسافروں کو بچانے کے لئے ریسکیو لائن نیچے پھینکی۔ سب سے پہلا شخص جس کے ہاتھ میں وہ رسی آئی، اُس شخص کا نام آرلینڈ ولیم تھا، ایک 46 سالہ بینک میں کام کرنے والا شخص، جس کے ذہن میں بچپن سے ہی پانی کا ڈر بیٹھا ہوا تھا۔ بابا جی خاموش ہوئے۔ بابا جی نے آگے اُس سادہ طبیعت آفس میں کام کرنے والے کا خاکہ کھینچا۔

رسی ہاتھ میں آتے ہی اُس نے ایک لمحہ ضائع کئیے بغیر اپنے ساتھ والے زخمی مسافر کو دے دی۔ جب پہلا مسافر رسی کے ذریعے ہیلی کاپٹر میں پہنچ گیا، تو ہیلی کاپٹر سے رسی دوبارہ پھینکی گئی اور وہ رسی دوبارہ ولیم کے ہاتھ میں جونہی پہنچی اُس نے فورا دوسرے زخمی مسافر کو دے دی۔ وہ اُس ٹوٹے ہوئے جہاز کے ٹکڑے پر کھڑا رہا اور ہر بار رسی اگلے مسافر کو تھماتا رہا۔ حتی کہ اُس کے علاوہ تمام مسافر خیر وعافیت سے ہیلی کاپٹر میں پہنچ گئے۔ بابا جی ایک لمحے کو رُکے۔

اس سے پہلے کہ رسی آخری بار ولیم کو لینے کے لئے اُس تک پہنچتی، جہاز کا ایک دوسرا ٹکڑا ولیم کے جہاز کے ٹکڑے سے ٹکرایا ۔ ولیم نے بچنے کی کوشش کی لیکن جھٹکے نےجہاز کے ٹکڑے کو الٹا دیا اور وہ ٹکڑا ولیم کو لیتا ہوا دریا کی گہرائی میں جا ڈوبا۔۔۔۔
اگر وہ چاہتا،۔۔۔۔ صرف ایک بار، ۔۔۔۔ اپنی جان کی دوسروں سے زیادہ پرواہ کرتا تو وہ زندہ بچ سکتا تھا۔ بابا جی نے “صرف ایک بار” کہتے ہوئے اس فقرے پر کافی زور دیا تھا۔ شاگرد بابا جی کے خاموش ہونے کے بعد آپس میں اس واقعے پر ڈسکس کرنے لگے۔

بابا جی نے کچھ دیربعد پہلے شاگرد کے دوست سے ، جس کے والد نیوی میں کلرک تھے، اس واقعے پر اپنی رائے دینے کی گزارش کی۔

شکریہ! یہ یقینا ایک اداس واقعہ تھا۔ میں آخر تک ولیم کے بچنے کی امید لگائے بیٹھا تھا، مجھے لگا کہ آپ اُس شخص کو جہاز کے کریش کے بعد کوئی بہت کامیاب ہیرو بنا کر دکھائیں گے، لیکن افسوس ولیم آخر میں اپنی جان نہیں بچا سکا۔” شاگرد کے دوست نے کہا۔ تمام بیٹھے ہوئے شاگردوں نے اس رائے سے متفق ہو کر حامی میں گردن ہلائی، اور زبانی بھی اس رائے سے اتفاق کا اظہار کیا۔ لیکن ان سب میں وہ شاگرد جس نے بابا جی سے سوال کیا تھا، اس واقعے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ثبت خاموشی تھی۔ بابا جی نے شاگرد کو خاموش دیکھ کراُس کی بھی رائے لینا ضروری سمجھی۔

یہ واقعہ سن کر میرا دل ولیم کے لئے کچھ دیر اداس ہوا۔۔۔ اورپھر ۔۔۔ شائد مجھے اس صورت حال نے ایک نیا زاویہ بھی دیا ہے۔ شاگرد نے کہا۔

پلیز ہم سب سے شئیر کریں بابا جی نے کہا

ولیم ایک عام سا انسان تھا میرے آپ جیسا۔ وہ کئی دہائیوں تک زمین پر میرے آپ جیسے لوگوں میں چلتا رہا ۔۔۔ اور شاید کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اُس عام سے آدمی میں کس طرح کی ہمت ہے۔۔۔ اسے شائد خود بھی پتہ ہی نہیں تھا۔
لیکن۔۔۔۔ جب وقت آیا، اُسے پتہ چلا کہ وہ خود کون تھا۔ اس درمیانی عمر کے بیوروکریٹ میں ہمت تھی،۔۔۔ ایسی ہمت کہ۔۔۔ ہم میں سے بیشتر ہی اس کی خواہش کر سکتے ہیں۔ میں اپنے سوالوں کو اور اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے، شائد خود میں ایک ولیم ، اور ولیم جیسی ہمت بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب جیسا آپ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، خطرہ لینے کی صلاحیت، مجھے آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ یہ صلاحیت میرے اندر کی ہمت کو بڑھائے گی۔” شاگرد نے کہا۔ بابا جی آگے بڑھے اور خوشی سے شاگرد کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ دیا۔

مجھے یہ واقعہ اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ ہمارے اردگرد نہ جانے کتنے ہی لوگ چلتے چلتے گزر جاتے ہیں، جو واقعی ہیرو ہیں، ۔۔۔ بس انھیں اسے ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔” بابا جی نے کہا۔ وہ بھیگی آنکھیں لئے، مسکراتے ہوئے اپنے اردگرد چمکتے ستارے دیکھ رہے تھے۔

تیرا دھیان کدھر ہے؟

تیرا دھیان کدھر ہے؟ کھٹے میٹھے طنز و مزاح سے بھرپور مضامین کا مجموعہ جو آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ بچار کا سامان بھی مہیا کرے گا۔

دیئے گئے لنک پر کلک کرکے ابھی کتاب آرڈر کریں

میرا قصّہ

کتابیں

اگلے ہفتے پھر حاضر ہوں گے ایک نئی کہانی کے ساتھ

اجازت دیجئیے گا
حبیب احمد نور

ہر ہفتے نیوز لیٹر حاصل کرنے کے لئے اپنا ای میل
پر رجسٹر کروائیں۔ ustaadian.com

اگر آپ لطف اندوز ہوئے ، تو اس نیوز لیٹر کو ٹویٹر ، فیس بک ، لنکڈ ان ، یا ای میل کے ذریعے شیئر کریں۔

یا نیچے دیئے گئے لنک کو کاپی اور پیسٹ کر کے شیئر کریں

https://mailchi.mp/ustaadian/jan-10

--

--