میری نانی کی یاد میں

Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
Sent as a

Newsletter

22 min readJun 29, 2022

Read more on Ustaadian.com
بہتر فارمیٹنگ کے ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

Tribute to my Naani

دوستوں کے ساتھ وقت اس قدر برق رفتاری سے گزرا کہ اس کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ نکلتے نکلتے ٹائم دیکھنےکے لئیے موبائیل نکالا تو ابا کی دس مس کالزتھیں۔

“اللہ خیر کرے! آج ابا کو اپنے لختِ جگر کی بڑی یاد آ رہی ہے”۔

گھر سے کچھ دور گلی میں گاڑی سے اُترے، اور چند قدموں کا فاصلہ دوڑتے ہوئے طے کیا۔

گھر کی گھنٹی بجانے سے پہلے ہی مین دروازہ ازخود کھل گیا اور دروازے کے پیچھے ایک موم سی گڑیا سے نگاہیں ٹکرائیں۔ چہرے پر میری دیری پر فکر بھرا غصہ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کہ کم بخت گھر تو آگیا ہے۔ میں نانی کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ آج ابا کی پدرانہ حِس اتنی بیدار کیسے ہوئی تھی-

نانی نے میرے شام کو گھر نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ابا سے فون کرائے ہوں گے۔ میرا فون حسبِ عادت گہری خاموشی کے سمندر میں غلطاں رہا، اور جواب نہ ملنے پر ابا کا غصہ آسمانوں کی بلندیوں کی طرف رواں دواں ہوتا گیا۔ اب نانی کی پریشانی دوہری ہو گئی تھی۔ اول یہ کہ بے چاری نانی ابا کے غصے سے پریشان تھیں۔ ہر کھٹکے, ہر آہٹ پر باہرجھانکتی تھیں کہ کب میں نامعقول گھر کو آوٗں- دوسرا یہ کہ مجھے چپکے سے کمرے کی طرف بھیج کر ابا کے عتاب سے کیسے بچائیں؟ اور پھر یوں ہی ہوا۔ انھوں نے مجھے چپکے سے گھر میں داخل کیا، ایک روائیتی چپت بھی لگائی، اور ساتھ ہی میرےگال پر ایک چھوٹا سا پیار دیا۔

“کون ہے؟۔۔۔ حبیب آ گیا ہے؟” ابا کی آواز آئی

“نور تو سوں جا!” نانی نے ابا کو سونے کا کہا، اور مجھے پکڑ کر میرے کمرے کی طرف لے آئی۔

ہم نے نہ توکبھی نانی کو بدلتے دیکھا اور نہ ہی کبھی ان کا اندازِ محبت بدلا تھا۔ وہ جیسی تھیں ویسی ہی رہیں۔ قد چھوٹا، جسم گول مٹول مگر قدرے بھاری۔ سر کے کچھ بالوں میں ہلکی سی سیاہی ابھی باقی تھی، کچھ میں مہندی کی کتھئ چمک اور باقی مطلع گہرا سفید تھا۔ نانی کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت سے ہونٹ تھے۔ امی شاید دل دل میں نانی کے چھوٹے ہونٹوں سے جلتی تھیں، اور ہم بھی سوچتے تھے کہ اگر امی کے ہونٹ نانی پر گئے ہوتے تو ہمارے بھی بڑے بڑے بُل نہیں ہوتے۔

نانی کی چھوٹی چھوٹی خوبصورت آنکھیں تھیں، ماتھے پر زمانے کی شکنیں, چہرے پر وقت کی جھریاں, اور منہ دندان مبارک سے بے نیاز۔ ان کے گوری ہتھیلیوں میں مامتا کی اتنی ملاوٹ تھی کہ ہم سوچتے تھے کہ اگر اللہ ہمیں 70 مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے تو نانی یقینا کم از کم 7 مائوں سے زیادہ پیار کرتی ہوں گی۔

نانی جتنا آہستہ آہستہ چلتی تھیں، اُن کی طبیعت میں جلد مزاجی اتنی ہی زیادہ تھی۔ اُن کی اس طبیعت سے سارا خاندان واقف تھا کہ نانی کسی بھی مسئلے کا فوری اور مختصر حل سوچتی تھیں۔ ہر کام کو فوراً نمٹا دینا ان کی منطق کا پہلا اور شاید آخری اصول بھی تھا۔

اذان ہوتے ہی وہ فوراً نماز کے لیے اٹھ جاتی تھیں۔ اگر کسی نے غلطی سے غسل خانے میں زیادہ دیر کے لئے سکونت اختیار کی تو بس ایک ہل ہپاڑہ شروع ہو جاتا ہے-

“پتا نہیں اندر کیڑیاں سوچا وچ مصروف ہے” (معلوم نہیں اندر کونسی سوچوں میں مصروف ہیں)

“جلدی نکل میری نماز قضا ہو رہی ہے”

اذان سننے کے بعد کلمہ پڑھتے ہی پہلا خیال ہمارے ذہن میں یہی آتا تھا کہ نانی نے وضو کرنا ہے اس لئے ان کے کمرے کے ساتھ ملحقہ طہارت خانے کی طرف ہرگز رخ نہ کیا جائے- مجھے یقین ہے کہ جن خبث جنات سے پناہ مانگتے ہوئے ہم طہارت خانے کا رخ کرتے ہیں وہ بھی اذان سنتے ہی نانی کی آمد کے پیش نظر دم دبا کر بھاگ جاتے تھے۔

شجرہ نصب سے نانی کھنڈ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ “کھنڈ” پنجابی میں میٹھی چینی کو کہتے ہیں۔ نانی ہمارے گائوں کے مشہور عالمِ دین کی بیٹی تھیں۔

نانی بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے ابا کی زبان ذکرِ اِلٰہی میں ہر وقت مشغول رہتی تھی۔ سوتے جاگتے زبان حرکت میں رہتی تھی ۔ ہم نے یہاں تک بھی سنا کہ کئی بار زبان کو ذکر سے روکنے کے لیے پرنانا جی کو طہارت خانے میں زبان پکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اُن کے مریدوں شاگردوں میں جنات شامل تھے جو اُن سے قرآن پڑھتے تھے، اور کئی بار جادوئی انداز میں گھر کے مختلف کام کاج بھی کرجاتے تھے۔

نانی کی باتوں میں ابا کا ذکر تو تھا لیکن اُن کی والدہ کا ذکر کم تھا کیونکہ وہ نانی کے بچپن میں ہی اس دنیا فانی سے کوچ کر گئیں تھیں۔ اکثر مورخین (جن میں خاندان کے کچھ بزرگ پیش پیش ہیں) کا کہنا ہے کہ نانی کی پیدائش ہلے گلے (یوم آزادی ) سے پہلے ہوئی تھی- وہ چند برس کی تھیں اور اماں ابا کہنا سیکھ چکی تھیں۔

نانی کی ایک بڑی بہن تھیں جو کوٹھے میرسنگھ میں بیاہی گئی تھیں، اور انھوں نے اپنی ساری عمر وہیں گزار دی تھی۔ پرنانا جی کی دوسری شادی سے نانی کے اکلوتے بھائ نانا حسین تھے۔ نانا حسین پرنانا جی کے واحد مصلٰی نشین, سجادہ نشین اور گدی نشین ثابت ہوئے یعنی مسجد, گھر اور امامت تینوں انھیں وراثت میں ملی تھیں-

نانا حسین بھی نانی کی طرح ایک الگ طبیعت رکھتے ہیں۔ وہ ہمارے گائوں کی چند چیدہ چیدہ روحانی شخصیات میں گنے جاتے ہیں۔ نانا حسین کے دم درود اور تعویزوں نے بڑے بچوں کو ماشااللہ سے اپنے والدین کا فرمانبردار کیا ہے- میں خود ان کے تعویذوں کا بڑا پکا مرید ہوں- آج کل گاؤں کے کنواروں کو حلال کرنے کی ذمہ داری بھی نانا حسین کے پاس ہے- اسی لئیے اکثر اپنی محفلوں میں کسی نہ کسی کی شادی کرانے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔

نانی اماں کا بچپن کیسا گزرا، اس بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ حالات بتاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر بار کی دیکھ بھال کرتی تھیں- نانی کی ازدواجی زندگی چھوٹی عمر میں ہی شروع ہو گئی تھی- ہمارے نانا محمد حسین نانی کے چچیرے بھائی تھے- نانا محمد حسین وظیفہ وظائف کے بڑے پابند تھے- دینی رجحان کی وجہ سے اپنی اولاد کی فکر سے مبرا رہتے تھے- اکثر لوگوں سے کہتے سنا ہے کہ اُن کی اولاد سے لاتعلقی کسی وظیفہ کا الٹا اثر پڑنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی- بہرحال یہ حقیقت تھی کہ اولاد کی کفالت کی ذمہ داری نانی کے ناتواں کندھوں پر ہی رہی تھی۔

ہمارے گاؤں میں ایک بڑا جاگیردار گھرانہ سید حضرات کا ہے ۔ میری نانی نے عمر کا ایک طویل حصہ اِن سید حضرات کی بیگمات کی خدمت کرتے ہوئے گزارا تھا — اُنہی کی مدد اور خصوصی نظر کرم کی بدولت نانی نے اپنے بیٹے کو میٹرک کروایا اور پھر اسکول میں کلرک کی نوکری دلوائی- اور نانی نے اسی قلیل ذریعہ معاش کے ذریعے اپنی پانچ بیٹیوں کی شادیاں بھی کیں-

نانی نے جیسے تیسے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیں۔ ہر شادی کا قصہ اپنے اندر ایک پوری کہانی رکھتا ہے- نانی نے پانچ بیٹیوں کو بڑے پیار سے چھوٹی چھوٹی عمروں میں ہی, ان کی عمر سے کافی بڑے بڑے حضرات کے عقد ثانی میں دے دیا-

ہم نانی کو اکثر اس بات پر چھیڑا کرتے ہیں کہ آپ نے تو بیٹیاں بانٹیں ہیں

“پُتر نذر آہ تیری, تے رمضان آہ تیری, تے نور آہ تیری”-

“ پتر! دھیاں دا بھار بڑا اوکھا سر توں لیندا ہے- مینوں جس طرح سمجھ آئی میں ایھ بھارسروں لا یہ”

نانی کا مطلب تھا کہ بیٹیوں کا بوجھ بڑی مشکل سے سرسے اترتا ہے- اور انھیں جیسے سمجھ آئی انھوں نے اس کار خیر کو سرانجام دیا۔ آخر میں مجھے طنزا کہا کرتی تھیں کہ تم اپنی بیٹی کو “بی اے” کروا کر شادی کروا لینا۔ میں اُن کی بات پر اٰمین سم اٰمین کی گردان پڑھنے لگ جاتا تھا۔ نانی کا قاعدہ تھوڑا روائیتی تھا جہاں لڑکے کو نعمت اور لڑکی کی رحمت کی “ر” پر نقطہ رہتا تھا۔

اپنی سب سے بڑی بیٹی کا دولہا انھیں کافی بڑی عمر کا ملا تھا- خالہ عائشہ کے میاں محمد علی اپنے علاقے کے بڑے زمیندار تھے اور نانی کی ذات “کھنڈ” سے تعلق رکھتے تھے- ان کی شخصیت کی بزرگی اور بڑائی اپنی مثال آپ تھی- اُن کی وفات کے بعد نانی اکثر کوٹھے جا کر اپنی بڑی بیٹی کا کام کاج میں ہاتھ بٹایا کرتی تھیں۔ خالہ عائشہ کے بڑے بیٹے سرور کو بچپن سے ہی شادی کا بڑا شوق تھا۔ نانی کو سرور کا وقت پر شادی کرنے اور پھر ڈھیر سارے بچے کرنے پر بڑا فخر تھا۔ اکثر سرور کی مثالیں دے کر ہم سب کو چڑایا کرتی تھیں۔
“حبیب اگر تو وقت پر شادی کر لیتا تو آج تیرے بھی چھ سات بچے ہوتے”۔

نانی کی دوسری بیٹی ہماری خالہ حلیمہ ہیں جو میرے والد کے بقول نانی کی سب سے خوبصورت بیٹی تھیں- خالہ حلیمہ کی نام کی حلاوت کا اثر ایسا واضح ہوا کہ ایک انکسار طبیعت شخصیت اُن کی رفیق حیات بنی- خالو یوسف انتہائی سادہ, صوم و صلوات کے پابند, محنتی انسان ہیں ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہی دیکھنے کو ملتی ہے-

نانی کی طرح ماشاءاللہ سےخالہ حلیمہ کی بھی کافی ساری بیٹیاں تھیں۔ لیکن بیچ بیچ میں نانی کو خوش کرنے کے لئیے انھوں نے بھی دو بیٹوں کو جنم دیا۔ اُن کے دونوں بیٹے ہمارے کزنوں میں سب سے زیادہ گورے ہیں، اور ماشاءاللہ سے سمجھدار بھی بہت ہیں۔ نانی کو مختیار کے عالم بننے پر دل سے خوشی تھی۔ مجھے یہ خوشی سمجھ نہیں آتی تھی کیونکہ نانی تو پکی دیوبندی تھی اور مختیار بریلوی عالم تھا۔ دوسری خوشی نانی کو مختیار کا اپنا گھر خریدنے پر تھی۔ نانی اکثر دعائیں دیتی تھیں کہ اللہ مجھے اپنا گھر دے، اور ساتھ ساتھ یہ لقمہ بھی ملتا تھا، کہ مختیار نے بھی تو تھوڑا تھوڑا کر کے اپنا گھر بنا لیا ہے۔

نانی نے اپنے دو بیٹیوں کے تجربات سے سیکھا کہ انکساری کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ اب کچھ تندوتیز اور مصالحہ ٹائپ تڑکا بھی ہونا چاہئیے۔ گرمی کے دن تھے، نانی اپنی سب سے بڑی بیٹی کے میکے کوٹھے میر سنگھ سے واپسی پر کچھ رشتہ داروں کے ساتھ پیدل چلتی ہوئی آ رہی تھیں۔ چلتے چلتے انھوں نے اپنی دو بیٹیوں کا رشتہ بہادر خاندان کے دو سپوتوں کے ساتھ طے کر دیا۔

پرانے زمانے کے بڑے بوڑھوں کی باتیں ہی الگ تھیں۔ چلتے چلتے بڑے بڑے فیصلے کر جاتے تھے۔ ہماری طرح نہیں کہ 29 رشتے دیکھے، تین چار بار دل تڑوایا، ایک دو بار دل توڑا، اور پھر بھی اللہ اللہ کر کے بس نکاح تک پہنچے۔

نانی کی تیسری بیٹی خالہ سکینہ یوں کہہ لیں ماشاءاللہ سے چاند کا ٹکڑا تھیں۔ اُن کی سادہ مزاجی ایسی تھی کہ ہر ملنے والے کا دل موہ لیتی تھی۔ نانی کو اپنی تمام بیٹیوں سے بہت پیار تھا، اور اس پیار میں خالہ سکینہ کی اپنی جگہ تھی۔ خالہ سکینہ کے میاں، نذر محمد ایک زمانے میں سیدھی بات کرنے کے قائل تھے، لیکن بزرگی نے اُن کو بھی انکساری کی راہ دکھا دی ہے۔ خالہ سکینہ کا سب سے بڑا بیٹا یوسف نانی کا دوسرا یا تیسرا فیورٹ نواسا تھا۔ میں ہمیشہ سے پہلا فیورٹ نواسا رہا ہوں، لیکن میری نظر میں خالہ سکینہ کے یوسف، اور خالہ حلیمہ کے مختیار میں دوسرے تیسرے کا مقابلہ ہمیشہ رہا ہے۔ نانی اور یوسف کا پیار بھی نرالا تھا۔ میں نے اکثر یوسف کو نانی کے پائوں دباتے دیکھا، نانی کی باتیں تحمل سے سنتے ہوئے دیکھا تھا۔ نانی اپنی شادی کا قصہ ہزاروں بار یوسف کو سنا چکی ہونگی کہ کیسے نانا محمد حسین 7 سال کے تھے، جب اُن کا نکاح پرنانا جی نے نانی کے ساتھ کر دیا تھا، اور یوسف ہر بار وہی حیرانی سے نانی کو جواب دیتا تھا۔ “اچھا!۔۔۔”

نانی کی ہر اُمید بیٹا پیدا کرنے سے بندھی رہتی تھی۔ لیکن جب چوتھی بار بھی بیٹی ہوئی تو نانی نے اللہ کے شکر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی چوتھی بیٹی کا نام شُکرہ بی بی رکھ دیا تھا۔ خالہ شُکرہ، خالو نذر کے بھائی محمد رمضان سے بیاہی گئی تھیں- خالہ شُکرہ کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ آپ مان لیں کہ خالہ مزاج کی بڑی دھیمی اور شگفتہ خاتون ہیں- انہیں کبھی کسی کو ڈانٹے تو بالکل نہیں پایا گیا- نانی اور ہم اگر اُن کی کسی بیٹی سے ڈرتے تھے تو وہ خالہ شُکرہ تھیں۔ لیکن خالہ کا پیار بھی جب ملتا تھا تو کثرت سے ملتا تھا، ہمارے بچپن کی چٹ پٹے اور لذیذ کھانوں کی یادیں خالہ شکرہ کے گھر سے ہی جڑی ہوئی ہیں۔ نانی کو ہر وقت اپنے بچوں کی کوئی نہ کوئی پریشانی رہتی تھی، لیکن اگر میری میموری ساتھ دے تو خالہ شُکرہ ایک ایسی بیٹی تھیں جن کے بارے میں نانی کو کبھی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ خالہ شُکرہ نے ہر اچھے برے حالات کا ڈٹ کر خود مقابلہ کیا تھا، اور نانی اس وجہ سے خالہ شُکرہ کی بہت عزت کرتی تھیں۔

اب باری آتی ہے ہماری والدہ کی شادی کی- اتفاقا والدہ کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ قصہ ازبر یاد ہے کے نانی نے کس طرح اُن کے لئے خوبصورت دولہا تلاش کیا تھا۔

تاریخ کو ذرا ڈرامائی رخ دیتے ہیں-

یہ 1983 کی بات ہے ہماری اماں نے بچپن میں نیا نیا پاؤں رکھا تھا۔ اماں کے لیے دور دور سے رشتے آنے لگے- نانی کی نظر میں اپنے بھائی کا بیٹا تھا لیکن وہ موصوف پڑھائی کی ہوا کھانے کے بعد گاؤں کے حسن سے نا واقف ہو چکے تھے- تعلیم نے ان کی آنکھیں چندھیا دی تھیں۔

دوسرے امیدوار بہادر خاندان کے ایک اور فرزند تھے، شاید نانی کا ہیٹرک کرنے کے درپے تھیں۔ کیونکہ اس سے پہلے ہی وہ اس خاندان کے دوسپوتوں کو اپنا داماد بنا چکی تھیں۔

جاڑے کے دن تھے،سورج کی روشنی تمکنت کا باعث تھی, ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھیں اور انہیں ہواؤں availability کے جھونکے نے ہماری دادی کو اماں حضور کی
کی خبر پہنچا دی تھی-

نانی اور دادی کا وہ سفر ایک یادگار بن گیا تھا، جب ایک ہچکو لے کھاتی ہوئی بس میں جب وہ چھوٹی چھوٹی گاڑیوں کو اوورٹیک کررہی تھی، دادی نے نانی سے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا تھا-

کچھ دنوں کے بعد دادی بڑے ارمانوں سے اپنے بڑے بیٹے کا رشتہ نانی اماں کے حضور لے کر حاضر ہوئی- ہماری دادی کے ایک دو گُن یہاں بتاتا چلوں کہ وہ گاؤں کی مشہور دائی تھیں اور میرے سننے میں آیا تھا کہ وہ حاملہ عورت کودیکھ کر بتا دیتی تھیں کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی- اللہ جنت نصیب کرے الٹرا ساؤنڈ آنکھیں تھیں دادی کی- نانی نے دادی سے سوچنے کے لئیے کچھ وقت مانگا- میری نظر میں بظاہر یہ نا انصافی تھی کیونکہ نانی نے پچھلی دو بیٹیوں کا رشتہ تو چلتے چلتے کر دیا تھا۔

حقیقت یہ تھی کہ نانی انکار کرنا چاہتی تھی۔ لیکن تذبذب میں تھیں کے کشتی منجدھار سے کیسے نکالی جائے- کسی بڑی شانڑی سہیلی نے مشورہ دیا کہ سیدھا انکار کرنا اگر مشکل ہے تو گھی ( یعنی ہماری اماں) ٹھیڑی انگلیوں سے بھی نکالا جا سکتا ہے-

“زینب (دادی) کا دوسرا بیٹا پڑھا لکھا ہے- شہر میں رہتا ہے اور سنا ہے اُس کی بات بھی اپنے ماموں کے طرف پکی ہے- اگر ہم لڑکا بدلنے کا کہیں تو زینب ایسا نہیں کر پائے گی، اور اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی” شانڑی سہیلی کا نانی کو یہ سٹار پلس مشورہ تھا۔

نانی نے اگلے ہی روز یہی بات سیدھی سیدھی دادی سے کردی۔ میرا خیال ہے دادی نے نانی کی بات سن کر شاید ایک لمحے کے لئے سوچا ہو گا، پھر اسی وقت اُن کی نظر ہماری اماں کے حُسن و جمال پر پڑی ہوگی۔ دادی حضور نے سب سے پہلے شہری منڈے کی منگنی توڑی اور اس کی منگیتر کو بڑے بیٹے کے ساتھ نتھی کردیا اور اماں کو اپنی بہو بنانے کا پلان بنا لیا-

دادی کی ان کوششوں کو دیکھتے ہوئے نانی نے مجبورا ہمارے ابا حضور کو قبول کرلیا- نانی زبان دے بیٹھی تھی، اور بیچاری کیا کرتیں- اکتوبر کی ایک شام ہماری اماں دھاڑیں مارتے ہوئے ڈولی میں بیٹھی اور پیا دیس سنوار گئی-

اگلے سال نومبر میں نانی کا سب سے فیورٹ نواسا یعنی ہم پیدا ہوئے۔ نانی کی تمام بیٹیوں کو پہلی اولاد بھی بیٹی ہوئی تھی۔ لیکن سب سے چھوٹی بیٹی رضیہ نے سب سے پہلے لڑکے کو جنم دیا تھا، اس لاجک سے نانی کی نظر میں ہم سپیشل مقام رکھتے تھے۔ نانی ہی تھی جنھوں نے ہمارا نام حبیب رکھا تھا۔ ایک عرصہ تک مجھے ایسا لگتا تھا کہ نانی اپنے پیار کو تین حصوں میں بانٹتی تھیں ایک حصہ ماموں اسماعیل کے لئیے، دوسرا حبیب اور تیسرا باقی سب کے لئیے۔

نانی کا اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سے پیار کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو امی سب سے چھوٹی تھیں، اور دوسرا امی نے سب سے پہلے پانچ بیٹوں کو جنم دیا تھا۔ یہ ہمارے نانکوں میں اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تھا۔ حالانکہ ہر بار میری امی کی خواہش لڑکی کی تھی۔ نانی نے عمر کا ایک بڑا حصہ ہمارے گھر میں گزارا تھا، امی ابو دونوں کام کرتے تھے، اور نانی اکثر یا تو بچوں کو سنبھالا کرتی تھیں یا گھر کے کسی کام کاج میں لگی رہتی تھیں۔

نانی کا اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل سے پیار فلموں والی ماں کا تھا ۔ یوں تو ہر ماں کے لیے اس کا بیٹا چاند کا ٹکڑا ہوتا ہے لیکن ہمارے ماموں نانی کے لیے پورا چاند تھے- ماموں کے روزگار کی فکر، ٹانگ کی فکر، بچوں کی فکر، اور نہ جانے کون کون سی فکریں تھیں جو نانی کو ماموں کے لئیے نہیں تھی۔ ماموں کی اولاد نانی کے لئیے عزیز ترین تھیں۔ خاص طور پر عبداللہ اور مزمل۔ جن کا ذکر کرتے نانی تھکتی نہیں تھی۔

ہمارے ماموں کے ہاں پہلے چار لڑکیاں ہوئی، اور ہر لڑکی کے ساتھ نانی کی پوتے کی چاہ بڑھتی گئی۔ نانی نے کہاں کہاں دعائیں نہیں مانگی ہونگی۔ فیصل مسجد، بری امام، اور گولڑہ شریف جیسی جگہوں پر نانی نے مجھ سے بھی دعائیں کرائیں تھیں۔ آخرکار اللہ نے سن ہی لی اور ماموں کے ہاں عبداللہ کی پیداہش ہوئی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ عبداللہ کے آنے سے نانی کی نظروں میں حبیب نام کی چمک ہلکی سی مدہم ہوئی تھی، لیکن میرے لئیے نانی کا پیار ایک ایسا سمندر تھا، جو مجھے کبھی کم ہوتا دکھائی نہیں دیا۔

عبداللہ کے بعد ماموں کے گھر پانچویں بیٹی ہوئی۔

“اماں جی! نام کیا رکھا جائے؟” ماموں نے احتراما پوچھا۔ یہ ماموں کی پانچویں بیٹی تھی اور نانی اللہ کا شکر گزار بننا چاہتی تھیں انہوں نے اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والی لڑکی کا نام “مائی شاکراں” تجویز کیا- ہم اس بات پر ماموں کو خوب چھیڑا کرتے تھے، اور پوچھیں نام، اور ماموں مسکرا کر ہمیں شکر ادا کرنے کو کہتے کہ ہمارے سر پر ایسے بڑوں کا سایہ موجود ہے،اور ہم بھی جواب میں کہہ دیتے تھے۔

“جی ماموں جی! ویسے بھی نانی جیسی شکر گزاری کہاں دیکھنے ملتی ہے ۔۔۔ مائی شاکراں”۔

ماموں کا دوسرا بیٹا مزمل نانی کا دوسرا ہیرو تھا۔ عبداللہ اور مزمل کی شکل میں نانی کو جیسے اپنے کرن ارجن مل گئے تھے۔ جتنا نانی اُن دونوں پر جان چھڑکتی تھی، اتنا ہی دونوں کی کوشش ہوتی تھی کہ نانی کو واپس پیار دیا جائے۔ نانی سکوٹر کی سواری سے ڈرتی تھیں لیکن اگر یہ سکوٹر مزمل یا عبداللہ چلا رہے ہوں تو اُن کے ساتھ خوشی خوشی بیٹھ جایا کرتی تھیں۔

نانی اماں لباس و زیبائش میں فیشن کے انتہائی مختلف رخ سے آشنا تھیں- ایک ہی رنگ کی شلوار قمیض پہننا قریبا ناممکن تھا۔ ان کے جوڑے کی سلیکشن پر ہم پراببلٹی کی پوری کتاب لکھ سکتے ہیں، کہ وہ کس قمیض کو کونسی شلوار کے ساتھ میچ کریں گی۔ ہمیں تو ہر بار حیران کر دیتی تھیں-لباس و زیبائش کی مساوات میں ان کی اوڑھنی ایک مستقل رکن رہتی تھی- سفید کپڑے کا ایک درمیانے سائز کا ٹکڑا، جس کے سائیڈز پر سلور کناری لگی ہوئی تھی، ہمیشہ نانی کے سر کی زینت بنا رہا تھا۔

نانی کے مشغلوں میں سلائی کڑھائی ٹاپ پر تھی۔ مجھے اکثر لگتا تھا کہ نانی اس ٹوہ میں رہتی تھیں کہ کونسی شرٹ یا جینز مجھے پسند ہے، اور پھر وہ شرٹ یا جینز مرمت کی غرض سے اُن کے ہاتھ چڑھتی اور میری نظر میں اللہ کو پیاری ہو جاتی تھی۔ میرے کالج کے زمانے میں جینز میں ایک نیا فیشن چلا تھا کہ اکثر نئی جینز کے پائینچوں میں ایک سائیڈ سے کٹ لگا ہوتا تھا۔ ہمارے مالی حالات نئی جینز خریدنے والے نہیں تھے۔ میرے چھوٹے بھائی حسیب نے بڑی محنت سے میری اور اپنی جینز کے پائنچوں پر کٹ لگا دیے، اور وہی کٹ کپڑے دھوتے وقت نانی کو نظر آگئے۔ بس پھر نانی نے سوئی دھاگے کا ڈبہ پکڑا اور نیلی جینز پر ہرے, کالے اور پیلے رنگوں کے دھاگوں سے ایسے تروپے(سی دیے) لگائے کہ انھیں دیکھ دیکھ کر ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ ہم نے گھر میں بات شروع کر دی کہ کیوں نہ چھوٹے بھائی اور نانی کو کوئی فیشن بوتیک کھول کردے دی جائے؟۔

سینے سلانے میں نانی کا ایک اور شوق “جُلی” بنانے کا تھا۔ “جُلی” فقیری مزاج کی ایک چادر کو کہتے ہیں- جس میں مختلف رنگوں کے کپڑوں کی چکور سائز ٹاکیاں لگی ہوتی ہیں- میری بہت سی پسندیدہ شرٹیں، جینز اور دیگر کپڑے نانی کی مہارت سے جُلیوں کی نظر ہو گئے تھے۔ ہر سال ان جُلیوں کے ساتھ رضائیوں کو ادھیڑنا اور سینا نانی کے محبوب مشاغل میں شامل ہوتا تھا-

کھانے پینے کا نانی کو خاص شوق نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ نانی کے دانت نہ ہونا بھی تھا۔ نانی کو جوانی کی عمر میں ہی دانتوں کی کوئی ایسی موضی بیماری لگی تھی کہ انہیں چن چن کر سارے دانت نکلوانا پڑ گئے تھے- دانت نہ ہونے کے باعث ان کے چہرے کا بھولپن مزید بڑھ گیا تھا۔ جس کے باعث وہ ہنستے ہوئے ایک چھوٹے سے بچے کی طرح لگتی ہیں-

اگر آپ نانی کے دانت نکلوانے کی کہانی سُن لیں تو یقین مانیں آپ کا آج کل کے ڈینٹسٹ کے پاس جانے کا خوف رفو ہو جائے گا۔ نانی کسی درخت کے نیچے بیٹھے دانتوں کے ماہر کے پاس جایا کرتی تھیں۔ جس کے پاس آلات میں ایک پلاس ہوتا تھا۔ وہ پلاس کی مدد سے دانت نکالتا تھا اور دانت نکالتے ہی منہ میں نمک کی ڈلی رکھ دیا کرتا تھا۔

گھٹنے زیادہ چلنے یا کھڑے رہنے سے شدید درد کرتے تھے لیکن پھر بھی نانی کسی نہ کسی کام کو کرنے کی کوشش میں رہتی تھیں- انھیں گھر کے کپڑے اکٹھے کرکے ان کو دھونے بیٹھ جانے کا بھی بہت شوق تھا۔ چھٹی کے دن جب میں گھر میں ہوتا تو اکثر میرے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی تھیں

“اے بنیان اتار دے حبیب! دو دن ہو گئے ہیں تینوں ایندے نال” وہ میرے پہنے ہوئے کپڑے زبردستی اتروا کر دھونے بیٹھ جاتی تھی۔ اور جب تک میں بنیان اتار کر انھیں دے نہ دوں وہ پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں۔

بھیگنا اُن کی صحت کے لئیے اچھا نہیں تھا لیکن پھر بھی برتن دھونے بیٹھ جاتی تھی۔ میں نانی کے ساتھ زبردستی کر کے اُنھیں بٹھانے کی کوششی کرتا تھا اور وہ امی سے میری شکائیت کرتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتیں کہ حبیب مجھے کام نہیں کرنے دیتا۔

“رضیہ! حبیب مینوں کم نہیں کرن دیندا”۔

تھوڑی دیر کے بعد میں ذرا سا ادھر ادھر کیا ہوتا وہ چپکے سے جھاڑو اٹھا کرگھر کے کسی دوسرے حصے کی صفائی کرنے لگ جاتی تھیں-

نانی زیادہ فرمائیشیں نہیں کرتی تھیں۔ ایک قرآنی سورتوں کا مجموعہ لیے مٹک مٹک کرتی کبھی میرے اور کبھی میرے حافظ بھائی کے پیچھے پھرتی جو کہ نانی کا چوتھا فیورٹ نواسا تھا۔ میرا سبق چیک کرلو، میرے پڑھنے میں مدد کر دو۔

انہیں کھانسی کے باعث سانس کی تکلیف رہتی تھی جس کے لئےوہ ہیوسٹ کی ٹافیاں چھوٹے بھائی سے منگواتی تھیں- ہر جمعہ کو ان کی خواہش ہوتی تھی کہ فیصل مسجد جاکر نماز ادا کریں جس کے لیے پہلے وہ خود چلی جایا کرتی تھیں لیکن کچھ عرصے بعد ان کے ساتھ کسی کو جانا پڑتا تھا- ہر بار گاؤں جانے سے پہلے اپنے پوتے پوتیوں کے لیے کوئی چھوٹے موٹے کھلونے انہیں چاہیے ہوتے تھے- ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش عمرہ یا حج کرنا تھی- اللہ نے اُن کو عمرے کی توفیق دی، جہاں انھوں نے اپنے دل کے ارمان پورے کئیے۔ عمرے کے دوران اُن کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور انھیں ہسپتال میں بھی کچھ دن گزارنے پڑے تھے۔

نانی کی بڑی خواہشوں میں ایک میری شادی بھی تھی۔ وہ جب بھی گاوٗں سے آتی تو یہ بات چھیڑ دیتی تھی کہ اس الو کے پٹھے کا کچھ سوچا؟

ہم بھی اکثر موضوع گفتگو بننے کے لئے انہیں چھیڑا کرتے تھے۔

“نانی سب کی شادی ہو گئی لیکن میری کوئی بات ہی نہیں کرتا”۔

“تو آپ شیطان ہیں” نانی ترکی بہ ترکی جواب دیتی۔

“نور اور رضیہ نے کتنی کوششیں کی لیکن تم نے ہر بار انکار کیا”۔

پھر وہ ایک ایک کر کے لڑکیاں گنوانا شروع کر دیتی تھیں۔

ایک لڑکی کا باپ حلال نہیں کماتا تھا، دوسری کی عمر چھوٹی تھی، تیسری موٹی تھی، چوتھی کا قد لمبا نہیں تھا۔ اور جب وہ بڑھا چڑھا کر میرے بہانوں پر کہتی کہ پچاس تو رشتہ دکھا چکے ہیں تمھیں، پہلے تو کوئی لڑکی پسند نہیں آتی اور اگر پسند آ بھی جائے تو ٹکتی نہیں۔

“یاد رکھی! سیانا کوا ہمیشہ گوہ تے ہی ڈ گدا ہے”
(سیانا کوا ہمیشہ گوبر پر ہی گرتا ہے)

آخر میں ساری باتوں کا سیاق و سباق وہ ایک پنجابی کے محاورے پر ختم کردیتیں تھیں- لیکن جب میرے بارے میں یہی بات کوئی اور ان سے کہتا تو نانی کی ساری وکالتیں میری طرف ہو جاتیں-

“اللہ اسے سوہنی، پڑھی لکھی، لمبے قد والی، اور کسی اچھے خاندان کی لڑکی دے گا” اور نانی کی اس بات پر ہمارے دل سے ایک لمبی آمین نکلتی تھی۔

“میں سارا وقت تیرے آستے ہی تے دعاواں کر دی ہاں” نانی اکثرمیرے لئیے دعائیں کیا کرتی تھیں۔ اگرمیں غلطی سے کسی دن بغیر ناشتے کیے گھر سے نکل رہا ہوتا تو نانی میرے پیچھے آتے ہوئے کہتی

“وے دودھ دا پھکا تے لے لے حبیب “
(دودھ کا گلاس تو پیتے جائو حبیب)

اور میں نانی کو تھوڑا چڑا کر دودھ پی کر فورا نکل جاتا تھا۔

ٹی وی سے نانی کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ لیکن اللہ بھلا کرے طارق جمیل صاحب کا، انھوں نے آخر نانی کو ٹی وی کی افادیت پر قائل کر ہی لیا تھا۔

لائٹ سیونگ والوں کو ایک مفت مشورہ ہے، کہ اپنے اشتہاروں میں آج کل کی جنریشن کو بجلی بچانے کی افادیت دینے کی بجائے بزرگوں کو حوصلہ دیں کہ وہ اس کارِ خیر میں آگے آئیں۔ وہ ہماری نانی کو لے کر اچھی بھلی کمپئین چلا سکتے تھے۔ یہاں کمرے سے کوئی نکلا نہیں اور نانی فورا پہنچ گئی اور چٹخ کر کے بتی پنکھا یا کمپیوٹر بند کر دیا- میری کچھ اسائمنٹس تھی جو ابھی save نہیں ہوئی تھیں اور میں کسی کام سے کمرے سے نکلا، واپس پہنچا تو کمپیوٹر بند پا کر میں نانی نانی کی گردان کئیے پورے گھر میں نانی کو تلاش کرنے لگ گیا۔ اور نانی چارپائی پر سکون سے بیٹھی کوئی رضائی ادھیڑے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہوتی تھی۔

“بندہ نہیں ایہہ بجو ہین”

نانی ہر نافرمان خاص طور پرمیرے چھوٹے بھائی حسیب کو “بِجو” کہہ کر بلاتی تھیں اور ہمیں آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ یہ بجو کس بَلا کا نام ہے۔

نانی کو تنگ کرنے کا ایک آسان فارمولا تھا۔ ہم دادکے خاندان سے بھی غریب تھے، اور نانکے سے بھی۔ لیکن نانی کو تنگ کرنے کے لیے ہم ایک پنجابی محاورہ دوہراتے تھے

“اللہ لوری لپڑی۔۔۔
ساڈا دادکا کوٹھا
ساڈی نانکی چھپری”

ہمارا دادکا پکے کوٹھے میں رہتا ہے اور نانکے چھپری میں رہتے ہیں۔

“سانو چھپری ہی چنگی
اللہ دے حبیب دی وی چھپری ہی سی”-

نانی جواب میں جلی بھنی کہتی کہ ہمیں چھپری ہی اچھی ہے، اللہ کے حبیب کی چھپری ہی تھی۔ نانی کے انداز میں ایک انوکھی معصومیت ہوتی تھی۔

نانی کی کل جمع پونجی اُن کی دعائیں تھیں۔ جن میں بہت سی صرف میرے لئیے ہوتی تھیں۔ میرے جب بھی امتحان آتے ابا نانی کو اُس کی خبر پہنچا دیتے تھے اور پھر میری نانی صبح شام میرے لیے سورۃ الفتح پڑھتی یا تسبیح پر دعائیں پڑھ پڑھ کر میری طرف پھوکے مارتی رہتی تھیں- میں اکثر کمرہ امتحان میں بیٹھے ان کی دعاؤں سے فیض یاب ہوتا رهتا تھا — میری اب تک کی کامیابیوں میں میری ذاتی محنت سے زیادہ اللہ کی خاص عنایت، اور نانی کی دعائیں شامل تھیں۔

2007 میں مجھے انجینئرنگ کی ڈگری ملی۔ میں امی ابو کے ساتھ نانی کو بھی خاص طور پر کنونشن سنٹر لے کر گیا تھا۔ نانی اماں کنونشن سینٹر کی بالائی منزل پر بیٹھی سارا وقت مجھے دیکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔ کبھی امی سے اور کبھی ابو سے پوچھتیں کہ ابھی تک حبیب کا نام کیوں نہیں آیا۔ اور ہر کوئی اردگرد نانی کو تسلیاں دیتا رہا کہ آ جائے گا، آپ گھبرائیں نہیں۔

جب میں میڈل لیے نانی کے پاس پہنچا تو ان کی آنکھوں میں نمی اور چہرے پر خوشی ایک تمکنت کا احساس لئے ہوئے تھی- جیسے ان کی ساری دعائیں آج کے دن پوری ہو گئی ہوں- انھوں نے مجھے بہت پیار دیا، اور ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھیں۔ کنونشن سنٹرمیں ابا جس سے بھی ملے یہی دوہراتے رہے کہ حبیب یہاں تک صرف نانی کی دعائوں کی وجہ سے پہنچا ہے۔ اور وہ موم کی گڑیا تمام تر عاجزی و انکساری لیے سراپائے دعا بنی کبھی زبان سے, کبھی کانپتے ہاتھوں سے, اور کبھی لرزتے لبوں سے خدائے رب جلیل کا شکر ادا کئے جا رہی تھی-

پھر میں پردیس آگیا۔ کبھی نانی کی باتیں یاد آتی تھیں، کبھی اُن سے پیار لینے کو بھی دل کرتا تھا۔
نانی کا ہر نماز کے بعد آ کر میرے ماتھے پر پھونک مارنا،
میرے ذہن کی تندرستی کے لئیے بادام، سونف، مصری اور دیگر چیزوں کا مرکب بنانا۔
میری ہر بدتمیزی کو برداشت کرنا،
کھانے کے لئیے ڈنر ٹیبل پر نہ آنے پر جھٹ سے کمپیوٹر کا پلگ نکال دینا،
رات کو جلدی نہ سونے پر بار بار آکر تنبیہ کرنا کہ سو جائو،
گھر وقت پر نہ آنے پر سارے گھر کو میری فکر میں رکھنا،
ابا سے گھڑی گھڑی فون کروانا،
کسی اضافی خرچہ سے روکنا،

میری زندگی کو بہتر بنانے کے لئیے ، مجھے بہتر انسان بنانے کے لئیے ، اخلاقی مزاج بنانے میں نانی نے بڑی محنتیں کی ہیں۔

آج مجھے کورونا کی وجہ سے گھر میں چھٹا دن تھا۔ رات کو دیر سے سوئے اور صبح دیر سے اُٹھے۔ صبح موبائیل دیکھا تو چارج سے خالی تھا۔ میں نے چارج پر لگایا اور بیگم کے لئیے ناشتہ بنانے لگ گیا۔ اکثر ہفتہ کی صبح میں امی ابو کو کال کر کے گھر کے حالات معلوم کرتا ہوں، لیکن آج موبائیل آن کرتے ہی واٹس ایپ پر ابو کی دس کالیں دیکھ کر ماتھا ٹھنکا۔

آج بھی اُن مس کالوں کے پیچھے نانی تھی، لیکن اس بارخبرنے مجھ میں بے چینی پیدا کر دی تھی۔ اب نانی اس دنیا میں نہیں رہی تھیں۔ میں نے خبر سنتے ہی اللہ کے فیصلے میں راضی ہونے کا کلمہ پڑھا۔ نانی کچھ دنوں سے ہاسپٹل میں تھیں، اور پچھلے تین دنوں سے ہوش میں بھی نہیں آئی تھیں۔ ڈاکٹر بتا رہے تھے کہ انھیں کچھ عرصہ پہلے کورونا ہوا تھا، جس کی وجہ اُن کے پھیپھڑے مزید کمزور ہو گئے تھے، اس کے ساتھ ساتھ دل اور دوسرے اعضاء بھی متائثر ہوئے تھے۔

آج جب اُن کے جسم کو دفنایا جا رہا ہے، میں پردیس میں بیٹھا نانی کو اپنے کچھ لفظوں کے ذریعے ہم سب میں زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہر رمضان آنے سے پہلے ہم سب نانی کو تنگ کیا کرتا تھا، کہ نانی رمضان آ رہا ہے۔ نانی کا جواب آتا تھا کہ اللہ مجھے رمضان کے کسی جمعے کو اپنے پاس بلا لے۔ اور رمضان گزرنے کے بعد ہم سب نانی کو چھیڑتے تھے، نانی رمضان تو گزر گیا۔

دراصل ہم دل ہی دل میں خوش ہوتے تھے کہ اگلے رمضان تک نانی اب ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن اس بار رمضان کو کچھ مہینے بھی نہیں گزرے تھے، کہ اللہ نے نانی کو اپنے پاس بلا لیا تھا۔

اللہ کا کوئ کام خیر سے خالی نہیں ہوتا، نانی کچھ عرصے سے کافی تکلیف میں تھی، اوردن بدن گرتی صحت اس حالت تک پہنچ گئی تھی کہ ہم سب اللہ سے نانی کا ایمان پرخاتمہ کی دعا مانگ رہے تھے۔

امی بتا رہی تھیں کہ صبح سات بجے کے قریب اُن کے دل کی دھڑکن کی آواز دینے والی مشین یک دم خاموش ہو گئی تھی۔ خالائوں نے اونچا اونچا کلمہ پڑھنا شروع کردیا تھا اور اسی لمحےسب نے نانی کے ہونٹ بھی کلمہ پڑھنے کے کے لئیے ہِلتے ہوئے دیکھے تھے۔

تیرا دھیان کدھر ہے؟

تیرا دھیان کدھر ہے؟ کھٹے میٹھے طنز و مزاح سے بھرپور مضامین کا مجموعہ جو آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ بچار کا سامان بھی مہیا کرے گا۔ دیئے گئے لنک پر کلک کرکے ابھی کتاب آرڈر کریں
میرا قصّہ | کتابیں

اگلے ہفتے پھر حاضر ہوں گے ایک نئی کہانی کے ساتھ اجازت دیجئیے گا

Habib Ahmed Noor

ہر ہفتے نیوز لیٹر حاصل کرنے کے لئے اپنا ای میل استادیاں کی ویب سائٹ پررجسٹر کروائیں۔ اگر آپ لطف اندوز ہوئے ، تو اس نیوز لیٹر کو ٹویٹر ، فیس بک ، لنکڈ ان ، یا ای میل کے ذریعے شیئر کریں

--

--