Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
Sent as a

Newsletter

8 min readMar 3, 2022

--

“پتر! نیچر وقت مانگتی ہے”

Read more on Ustaadian.com

بہتر فارمیٹنگ کے ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

ہمارے گاؤں میں بابا جی کھیتی باڑی کے ماسٹر مانے جانے تھے۔ گاؤں کا ہر چھوٹا بڑا کسان، دور دور کے علاقوں سے جاگیردار اپنی فصلوں کی نگہداشت کے لئیے بابا جی سے مشورے لینے آتے تھے۔ ہر جاگیردار کی کوشش ہوتی تھی کہ بابا جی اُس کے بیٹے کو اپنا شاگرد بنائیں اور اس خواہش نے ایک روایت کو جنم دیا۔ علاقے کے جاگیردار اپنے بیٹوں کو کچھ عرصہ بابا جی کی شاگردی میں بھیجا کرتے تھے۔ گدی نشین بیٹے کسانوں کے ساتھ کھیتی باڑی کے گُر سیکھتے تھے، اور ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں میں توازن اور عاجزی لاتے تھے ۔

اس سال دسویں کے بورڈ کے امتحان میں ایک جاگیردار کے بیٹے نے پورے بورڈ میں تیسری پوزیشن لی تھی۔ جاگیردار نےپورے علاقے کی دعوت کی، اور بابا جی کی تعظیما ذاتی طور پر شریک ہونے کی دعوت دی تھی۔

بابا جی دعوت میں پہنچے تو جاگیردار نے بڑی عاجزی سے سلام کیا

حسن نے ماشاءاللہ سے بورڈ میں تیسری پوزیشن لی ہے۔۔ بابا جی نے سُن کر جاگیردار کے بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔

میں تو سمجھتا تھا کہ سارا دن کمپیوٹر پر بیٹھ کر ٹائم ہی ضائع کرتا رہتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے جاگیردار نے ہنستے ہوئےحسن کی گردن پر چپت لگا دی۔

میکو تاں اج پتہ چلیا، اے گیماں وی علم سکھاندیاں نے جاگیردار بولا۔

میری خواہش تھی۔ اب حسن کچھ سال آ دے ساتھ گزار لے، مگر حسن !۔۔۔ ایہہ تاں وڈے کالج دے خواباں ایچ ہے۔ جاگیردار نےحسن کی گردن پر پیار کی چپت رسید کی۔

میں حسن کو سمجھانا ہے، پتر اتنے مربعے ہیں، انہاں کو بھی دیکھنا ہے۔ آخر ۔۔۔ کب تک پڑھائی کے چنچل میں پھنسا رہے گا۔

حسن کے چہرے پر بے زاری سی تھی۔

پھر اس نے اتنی بڑی پوزیشن لی ہے، اس کا مطلب ہے کہ میرے پتر میں صلاحیتیں ہیں، وہ انگریجی میں کیا کہتے ہیں،۔۔۔ ہاں! ٹیلنٹ۔۔۔ آپ کی شاگردی میں جلد ہی سب کچھ سیکھ جائے گا۔

حسن کی آنکھوں میں ہلکی سی امید جاگی۔

میرے کو یقین ہے ۔۔۔ آپ جو سبق اپنے شاگردوں کو تین سال میں سکھا سکتے ہیں ۔۔۔ میرا بیٹا!۔۔۔ وہی سبق ایک ہی سال میں سیکھ لے گا۔

بابا جی خاموشی سے سنتے رہے، مسکراتے رہے۔ یہ پہلا جاگیردار کا بیٹا نہیں تھا، جو ان کی شاگردی میں آنے سے پہلے بغاوت پر تھا۔

ٹھیک ہےجاگیردار صاحب! آپ کی دو بڑی فصلیں ہیں، چاول اور گندم۔ حسن اگر پہلے سال میں ہی ان فصلوں کی باریکی، اور تمام ضروری ہدایات سیکھ لیتا ہے تو میں مطمئین ہو جاؤں گا۔ بابا جی نے حامی بھری۔ حسن، اور جاگیردار صاحب دونوں خوش ہو گئے۔

اگلے تین ماہ بابا جی نے حسن کو تمام فصلوں کے اصول سمجھائے۔ حسن کو فصل کا کوالٹی بیج ڈھونڈھنے سے لے کر کاشت ، فصل کی کٹائی اور کاٹ کر بیچنے کے اصول ازبر ہو گئے تھے۔

چاول کی کاشت کا وقت آ گیا تھا۔ حسن مہینوں سے دن رات بابا جی کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔ بس ہر دو ہفتے بعد حویلی میں کمپیوٹر کی شکل دیکھنے کو ملتی تھی۔ آجکل کا نوجوان محبوبہ کے بغیر تو رہ لے، لیکن لیپ ٹاپ اور موبائل کے بغیر کیسے رہ سکتا ہے۔

بابا جی کا چاول کی فصل پر لیکچر جاری تھا۔ حسن نے بابا جی کوبات ختم کرتے ہی فورا اپنا مدعا بیان کیا۔

میں نے اس بار چاول کی فصل پر ٹھیک ٹھاک ریسرچ کی ہے، ہم اپنی فصل کی پیدوار کو آسانی سے دوگنا کر سکتے ہیں۔ مجھے موقع دیں کہ میں خود کو ثابت کر سکوں۔ حسن نے کہا۔

ٹھیک ہے پتر! ہم تو ہمیشہ سیکھنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

بابا جی بولے۔

ہم پل کے ساتھ ساتھ دو کھیت لے لیتے ہیں۔ ایک کی ذمہ داری آپ لے لیں، اور دوسرے کی میں لے لیتا ہوں۔ حسن نے کہا۔ بابا جی نے سوچا، سر کھجایا، جیسے کچھ سوچ رہے ہیں، اور حامی بھر لی۔

لیکن میری شرط ہے۔ حسن نے کہا۔

ہاں! شرط،۔۔۔ میں انتظار کر رہا تھا، کہ کچھ تو ہے جس کی خواہش ہے بابا جی مسکرائے۔

اگر میرے کھیت کی پیداوار آپ کے کھیت سے زیادہ ہو گی، توکلاسیں ختم، اور آپ مجھے گھر واپس جانے کی اجازت دیں گے، بلکہ ابا کو بھی راضی کریں گے حسن نے کہا،

“ اور اگر پیدوار زیادہ نہ ہوئی تو؟”

پھر، آپ بتائیں، ۔۔۔ آپ کو کیا چاہئیے حسن نے کہا۔

ٹھیک ہے، میں اپنی خواہش کو اس مقابلے کے نتیجے پر بتاؤں گا۔ یہ کہتے ہوئے بابا جی نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ حسن نے جھٹ سے شرط منظور کرتے ہوئے بابا جی سے ہاتھ ملا لیا۔

اگلے کچھ دن بابا جی اور حسن نے خوب محنت کی۔ دھان کی فصل دونوں کھیتوں میں تقریبا برابر برابر تھی۔ حسن دن میں چھ سات بار کھیتوں میں جاتا، اور فٹے کی مدد سے اپنی فصل اور بابا جی کی فصل میں پودوں کی لمبائی ناپتا رہتا تھا۔

بابا جی نے وعدے کے مطابق جاگیردار صاحب کو مقابلے کے بارے میں بتایا، اور اُس کی شرطوں پر راضی بھی کر لیا تھا۔ جاگیردار صاحب نے خود کومقابلے میں منصف بنانے کی پیشکش کی جسے قبول کر لیا گیا۔

اگلے دن جاگیردار فصلوں کے پہلے معائنے کے لیے آنے والے تھے۔ حسن کوپریشانی کے سبب پوری رات نیند نہیں آئی تھی۔ وہ صبح سورج نکلتے ہی فصل دیکھنے کھیتوں میں چلا گیا۔

وہاں جب فٹے سے دونوں فصلوں کی لمبائی دیکھی تو ابھی بھی دونوں فصلیں بہت سست روی لیکن ایک ہی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ “نہیں!۔۔۔ نہیں!۔۔۔ نہیں!۔۔۔” حسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔

اچانک ایک آئیڈیا بجلی کی تیزی سے اُس کے ذہن میں آیا اور اُس نے فورا اُس آئیڈیے پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ حسن کو کچھ گھنٹے لگے، لیکن اُس کے آئیڈیے نے فورا کام کر دکھایا۔ اب اُس کی فصل کے بیشتر پودے بابا جی کی کھیت کے پودوں سے اونچے دکھائی دے رہے تھے۔

دوپہر ہونے کو آ رہی تھی۔ بے شک سورج کی تپش تھی، لیکن دور سے قریب آتے ہوئے بادل آج کل میں ہونے والی بارش کا پیغام دے رہے تھے۔ حسن بادلوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ فصلوں کو پانی کی ضرورت تھی۔ حسن نے ڈیرے کا رُخ کیا۔ بابا جی اُسے ڈیرے میں آتا دیکھ کر مسکرا دئیے۔ تھوڑی دیر میں جاگیردار صاحب بھی پہنچ گئے۔

بابا جی نے اُن کی خاطر مدارت کا انتظام کر رکھا تھا۔ کھانے پینے، بات چیت کرنے میں کچھ وقت بیت گیا۔ حسن کی خوشی اور بے چینی دیدنی تھی۔

چلیں!۔۔۔۔ حسن نے آخرکار جاگیردار صاحب سے گزارش کر ڈالی۔

چلیے چلتے ہیں۔ بابا جی کھڑے ہو گئے۔ سب لوگ پیدل ہی کھیتوں کی طرف چل پڑے۔ بادل قریب آ گئے تھے، اور ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی۔
جونہی سب حسن کے کھیتوں تک پہنچے، سب ہکا بکا ہو گئے۔ حسن کی آدھی سے زیادہ فصل میں پودے گرے ہوئے تھے۔ بابا جی ، جاگیردار ، اور حسن، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔

حسن!۔۔۔ یہ تمھاری فصل کو کیا ہوا۔ جاگیردار نے کہا۔

ابا! قسم لے لیں، ابھی دوپہر تک تو بالکل ٹھیک تھی، یہ دیکھیں، ۔۔۔ میں نے تو موبائل میں تصویریں بھی بنائی تھیں۔ حسن نے کہا، اور ساتھ ہی موبائل میں تصویریں دکھانے لگا۔ بابا جی نے موبائل میں دیکھتے دیکھتے ایک لمحے کو رُکے،۔۔۔ تصویریں دوبار دیکھیں، ۔۔۔اور پھر حسن کو دیکھا۔

جاگیردار صاحب! اگر آپ برا نہ مانیں تو آپ گھر نکل جائیں، ویسے بھی بارش ہونے والی ہے۔ میں اور حسن،۔۔۔ اس سارے معاملے کی چھان بین کر کے آپ کو رپورٹ دیتے ہیں۔ بابا جی نے کہا۔ جاگیردار صاحب رکنا چاہتے تھے، لیکن بابا جی کے اسرار پر حویلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ حسن اور بابا جی واپس ڈیرے چلے گئے۔

رات کے کھانے اور چائے کے بعد، بابا جی نے ڈیرے میں ہُکا بکھایا وہ اب ہُکے کے کش لے رہے تھے۔ ان کے پاس حسن بیٹھا ہوا تھا۔

پتر! پوری بات بتاؤ ۔ آج کیا ہوا تھا۔ بابا جی نے پوچھا۔

حسن نے پھرشام والی پوری کہانی سنا دی۔

پتر! بڑے تھک گئے ہو گے۔

جی بابا جی!۔۔۔ بڑی محنت کی، یہ تصویریں دیکھیں۔۔۔ فصل کیسے لہلہا رہی تھی۔ شائد ہی کوئی پودا ہو، جسے میرے ہاتھ نہ لگے ہوں حسن افسردہ تھا ۔ بابا جی چونکے۔

“مطلب! کیا سارے پودے آپ نے خود لگائے تھے؟”

“نہیں بابا جی، ۔۔۔۔ آج تین گھنٹے لگے مجھے ایک ایک پودے کو ہاتھ سے اونچا کرنے میں۔۔”

بابا جی نے طبیعت کے خلاف اپنے ماتھے پر ہلکے سے ہاتھ مارا۔ وہ فصل کی خرابی کی تہہ تک پہنچ گئے تھے۔

پتر!۔۔۔ فصل اپنا ٹائم لیتی ہے۔ آپ نے وقتی طور پر مقابلہ جیتنے کے لیے فصل اونچی کرتو لی۔ لیکن وقت سے پہلے، نیچرل طریقے کو روک کر، آپ نے آج اپنے لیے مسئلہ بنا لیا۔۔۔

پتر قدرت وقت مانگتی ہے بابا جی نے کہا۔ پھر حسن کو مزید تفصیل سےباقی کی فصل کو کیسے بچانا ہے اُس پر کچھ ہدایات دیں۔

ہُکا بھی آخری دم پر تھا، بابا جی نے اُسے سائیڈ پر کیا۔ اب وہ چارپائی سے اٹھ کر آرام گاہ کا رُخ کر رہے تھے۔

آپ نے اپنی خواہش نہیں بتائی۔ آپ شرط جیت گئے ہیں۔ حسن نے کہا۔

ہاں! اچھا کیا یاد دلا دیا۔

پتر! میری خواہش ہے کہ میرا شاگرد سیکھنے کو بوجھ نہ سمجھے۔ اُسے معلوم ہونا چاہئیے کہ میری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔اگر آپ یہاں سے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کے لیے جاگیردار صاحب کو رازی کرنا میری ذمہ داری ہے۔ بابا جی نے کہا۔

حسن نے بابا جی کو دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی ٹہری ہوئی تھی۔ بابا جی بھی مسکراتی آنکھوں سے شفقت بھرے انداز میں اُسے دیکھ رہے تھے۔ حسن نے خاموشی سے سر کو جنبش دی، اور عزم لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ بابا جی نے انتہائی نرمی سے مصافحہ کیا۔

شکریہ پتر!۔۔۔ کل سے کام شروع کرتے ہیں۔ بابا جی نے کہا، اور پھر اپنی آرام گاہ میں چلے گئے۔ حسن نے اگلے دو سال بابا جی کے ساتھ کھیتوں پر کام کیا۔

آجکل حسن یورپ کی ایک یونیورسٹی سے انجینئیرنگ کی ڈگری کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی میں حسن کی ایک پاکستانی دوست سے بات ہو رہی تھی۔ جنھوں نے ڈگری جلدی کلئیر کرنے کے لیے بہت سارے کورسز اکٹھے اٹھائے ہوئے تھے، وہ دو سال کی ڈگری ایک سال میں کرنے کا ارادہ لیے ہوئے تھے۔ حسن کو اپنی راہ پر چلنے کا مشورہ دے رہے تھے۔پاکستانی دوست کی بات سنتے ہی حسن کے ذہن میں بابا جی کی آواز ابھری۔

پتر! نیچر وقت مانگتی ہے۔ حسن مسکرا دیا۔

تیرا دھیان کدھر ہے؟

تیرا دھیان کدھر ہے؟ کھٹے میٹھے طنز و مزاح سے بھرپور مضامین کا مجموعہ جو آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ بچار کا سامان بھی مہیا کرے گا۔

دیئے گئے لنک پر کلک کرکے ابھی کتاب آرڈر کریں

میرا قصّہ

کتابیں

اگلے ہفتے پھر حاضر ہوں گے ایک نئی کہانی کے ساتھ

اجازت دیجئیے گا

حبیب احمد نور

ہر ہفتے نیوز لیٹر حاصل کرنے کے لئے اپنا ای میل
پر رجسٹر کروائیں۔ ustaadian.com

اگر آپ لطف اندوز ہوئے ، تو اس نیوز لیٹر کو ٹویٹر ، فیس بک ، لنکڈ ان ، یا ای میل کے ذریعے شیئر کریں۔

یا نیچے دیئے گئے لنک کو کاپی اور پیسٹ کر کے شیئر کریں

https://mailchi.mp/ustaadian/3-march

--

--