Authority kay Zair-e-Asar (Milgram Experiment)

Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
8 min readJul 14, 2019
Image Source

اتھارٹی کے زیرِ اثر

ہمارے ایک بزرگ ہیں جوحلقہِ مرید میں ٹیکنیکل بابا جی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ ہم ان کی درگاہ میں عقیدت سے سر جھکائے بیٹھے تھے کہ انھوں نے پروجیکٹر پرایک تحقیقاتی ڈاکومینٹری چلا دی۔ فلم شروع میں تھوڑا رُکی کیونکہ آن لائن یو ٹیوب سے چل رہی تھی لیکن پھر تھوڑی دیر کے بعد بابا جی کی کرامات رنگ لائی اور ویڈیو نے بفرنگ کے سگنل سے آگے نکل کر چلنا شروع کر دیا ۔

منظر میں ایک آدمی اپنے سامنے میز پہ پڑی مشینری کو آپریٹ کر رہا تھا۔ سوال جواب کا سلسلہ چل رہا تھا ۔ وہ ایک سوال کرتا اور تھوڑی دیر کے بعد مشین میں سے جواب کی آواز آتی۔

جواب سنتے ہی اس آدمی کے ساتھ کھڑا ہوا سائنسدان اُس جواب کو اپنے سامنے پیپر پر چیک کرتا، اور صحیح جواب کی صورت میں آدمی کواگلا سوال پوچھنے کا اشارہ کردیتا تھا۔ اصل حیرانگی ہم کو غلط جواب پربزر کی آواز آنےاور اُس پر آدمی کا مشین پر کوئی ایک بٹن دبا دینے پر ہوئی۔

۔ہر بٹن کے دبانے پرسوال کا جواب دینے کی درد بھری آواز مشین کے سپیکر میں سےآ رہی تھی۔ اچانک ایک بٹن جس کے اوپر 591 وولٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا اُس کے دبانے پر مشین کے سپیکر میں سے جواب دینے والی کی انتہائی تکلیف بھری التجا سنائی دینے لگی۔

۔ ”مجھے باہر نکالو میں نے آپ سے کہا ہے کہ میں دل کے عارضے میں مبتلا ہوں۔ مجھ سے اب اور نہیں سہا جاتا“۔ اس آواز کو سنتے ہوئےآدمی کے مشین سے ہاتھ ہٹ گئے اور وہ اپنے سے کچھ فاصلے پر بیٹھے سائنسدان کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا

۔”میرا خیال ہے ہمیں اس ایکسپریمنٹ کو روک دینا چاہئیے ورنہ اس شخص کی جان بھی جا سکتی ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بڑی پریشانی میں پھنس جائیں“۔ آدمی نے کہا۔ سائنسدان اس کی بات سن کر ہلکا سا مسکرایا اور اُسے تصلی دیتے ہوئےکہا۔

۔”یہ انتہائی ضروری ہے کہ آپ کسی بھی حالت میں ایکسپیریمنٹ کو جاری رکھیں“۔

سائنسدان کے جواب سے وہ آدمی مطمئن نہیں ہوا اُس نے دوبارہ پوچھا
”۔” دیکھئیے اگر اسے کچھ ہو گیا تو اُس کی ذمہ داری کون لے گا؟

سائنسدان دوبارہ اُسے تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہے، اور یقین دہانی دلا رہا ہے کہ کسی بھی حادثہ کی صورت میں تمام ذمہ داری سائنسدان کی ہوگی۔ آخر میں سائنسدان نے کہا

۔”آپ سوال پوچھئے اورہر غلط جواب پر الیکٹر ک شاک کے جھٹکے بڑھاتے جائیے“۔

وہ آدمی بیچارگی کے عالم میں سائنسدان کو کچھ لمحے کے لیئے دیکھتا رہا۔ اورپھر کندھے اچکاتے ہوئے دوبارہ سوال پوچھنے لگ گیا ۔ باوجود اس کے کہ دوسری طرف سے مسلسل چیخیں سنائی دے رہی تھیں وہ ہر غلط جواب پر شاک کے وولٹ بڑھاتا چلا جا رہا تھا ۔ حتٰی کہ کچھ دیر بعد سپیکر سے آواز آنا بند ہو گئی۔

میں یہ ویڈیو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ دوسری طرف جواب دینے والے کو پکا ہارٹ اٹیک آ گیا ہوگا۔ کیونکہ اب کوئی جواب نہیں آ رہا تھا ۔اب ایکسپریمنٹ کو بھی ختم ہو جانا چاہئے۔ لیکن سائنسدان نے جواب نہ ملنے کے باوجود آدمی کو سوال جاری رکھنے اور شاک دینے کے عمل کو جاری رکھنے کا کہا۔ یہاں تک کہ مشین میں شاک دینے کی آخری حد 950 وولٹ پہنچ گئی۔

درگاہ میں بیٹھے ہوئے تمام مرید اس عجیب سی صورتِ حال پر دم بخود تھے کہ اس وڈیو کا مقصد کو دکھانے کا مْصد کیا تھا ۔

بابا جی نے مسکراتے ہوئے سب کی طرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اورآہستہ آہسہ اس ویڈیو کے پیچھے حیران کن کہانی کے بارے میں بتانا شرو ع کیا۔

Yale University یہ مئی 1982 میں”
میں انسانی رویوں پر کی جانے والی تحقیق کی منظر کشی تھی۔

مِلگرم ایکسپیریمنٹ میں 40 مرد حضرات جن کی عمر 20 سے 50 سال کے درمیان تھی اُن کو مختلف سوالات کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔ انھیں ایکسپریمنٹ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیاتھا کہ مشین کی دوسری طرف ایک شخص آپ کے سوالوں کے جواب دے گا۔ اس شخص کے ساتھ دو الیکٹرانک تاریں جڑی ہوں گی جو مشین کے اوپر کوئی بھی بٹن دبانے سے جواب دینے والے کو ایک خاص مقدار کا شاک دیں گی ۔ آپ کا کام غلط جواب کے بزر کو سننے کے بعد مشین کے اوپر بٹن کو دہا کرالیکٹرک شاک دیناہے۔

اس ایکسپیریمنٹ کے بارے میں کئی ماہر نفسیات نے پیشن گوئی کی تھی کہ صرف ایک سے دو فیصد افراد جواب دینے والی کی تکلیف بھری آہ و بکا کے باوجود الیکٹرک شاک دینے کے عمل کو جاری رکھیں گے۔ جب یہ ایکسپیریمنٹ مکمل ہوا تو اس کے نتائج چونکا دینے والے تھے “۔

یہ کہہ کر بابا جی نے ایک لمحے کو سانس لیا اور پھر سب سے سوال پوچھا۔

۔”آپ کا خیا ل ہے، 40 میں سے کتنے لوگوں نے اپنے آپ کو شاک دینے سے روکا ہو گا”۔

بابا جی کی بات ختم ہوتے ہی مختلف لوگوں نے اندازے لگانے شروع کر دیئے ۔

دس افراد
دو افراد
ایک بھی نہیں

بابا جی نے اکثر کے جواب سن کر اپنی بات جاری رکھی

۔ ”50 فیصد سے زائد افراد نے یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ دوسری طرف جواب دینے والا انسان دل کا مریض ہے، اوروہ تکلیف سے بھری التجائیں کر رہا ہے ۔ انھوں نے الیکٹرک شاک دینے کے عمل کواتھار ٹی کے حکم پر آخر تک جاری رکھا۔

اس تجربے نے انسانی برتاؤ کے بارے میں یہ ثابت کیا کہ اتھارٹی آپ کے ہوش وہواس پر آسانی سے قابض ہو سکتی ہے۔کسی غلط کام کے بارے میں آپ کے خیالات کواتھارٹی نا صرف تبدیل کر سکتی ہے بلکہ آپ کو اُسے سر انجام دینے پر آمادہ بھی کرسکتی ہے”۔

مریدوں کی پہلی صف میں منشی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ بابا جی کی تقریر کے اختتام پرایک ہاتھ (bandwidth) سے نعرہ لگایا ”بابا جی کی بینڈ وتھ
بڑھے“۔ سب مریدوں نے یک جو ہو کر اٰمین کہا۔

منشی صاحب مزید بولے۔ ”سچ کہا جی! اتھارٹی آدمی کو اُس کی مرضی، اُس کے اصول کے خلاف کام کرنے پربڑی آسانی سے مجبور کر سکتی ہے۔ ایک دفعہ یورپ میں پڑھتے ہوئے میں کام کی سخت تلاش میں تھا۔ میری ایک پاکستانی ریسٹورنٹ کے مالک سے فون پر بات ہوئی اور انھوں نے مجھے انٹرویو کے لئے بلایا تھا۔ انٹرویو کے دن ریستورانٹ کی طرف جانے کے لیے ٹرین پکڑی۔ میرے ذہن میں ٹیلی فون پر کی ہوئی باتیں سارے راستے چلتی رہیں۔ مالک نے خاص طور پر کہا تھا کہ انھیں ایک ایسا ویٹر چاہئیے جو کھانے کی دیگر چیزوں
(Serve) کے ساتھ شراب بھی سر و
کرے۔ میں نے جوابا اپنا مسلمان ہونا بتایا اور عذر پیش کیا کہ میں شراب کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔ جس پر مالک نے عجیب لہجے میں جواب دیا کہ دیکھ لیں ہمیں تو اپنے مطلب کا ویٹر چاہئے “۔

یہ کہہ کر منشی صاحب تھوڑی دیر کو رُکے اپنے رومال سے انھوں نے اپنی آنکھیں صاف کی اور پھر بولے

۔”پورے راستے یہی سوچ میرے ذہن میں چلتی رہی کہ اگر نوکری مل بھی گئی تو کیا کل کوریستورانت میں گاہکوں کو شراب سرو کرا پڑی تو کیا کروں گا۔ کیا میرا مذہب اور میرے اصول مالک کی اتھارٹی کا مقابلہ کر سکیں گے۔ خیرمجھے نوکر ی مل گئی تھی۔ مالک مسلما ن تھا اُس نے حالات پر ترس کھا کر نوکر ی تو دے لیکن میرے ضمیر اور اتھارٹی کی جنگ پہلی بار، دو سری باریا دسویں بارتک قائم رہی لیکن پھر میں نے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔ کندھے اچکاتے ہوئے، یہ کہتے ہوئے کہ جب سب کر رہے ہیں تومیرے کرنے سے کیا فرق پڑ جائے گا ، باس کا حکم سر آنکھوں پررکھ لیا “۔

منشی صاحب یہ کہہ کر خاموش ہو گئے ۔ باباجی نے ساتھ بیٹھے منشی صاحب کے کندھے پر آہستکی سے ہاتھ رکھا اور بولے۔

۔” کوئی بھی ایسا کام جو آپ کے اصول، روایات، اور مذہب کو چیلنج کرتا ہو ۔ اُسے پہلی بار کرنے پہ کچھ ایسے ہی خدشات دل میں ابھرتے ہیں۔ ہمارے مختلف شعبوں میں ضمیر اور اتھارٹی کی جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ اکثر ضمیر سے لڑتے لڑتے ہم اتھارٹی کے سامنے ماتھا ٹیک دیتے ہیں اور جب ہم اتھارٹی کے لیول کو پہنچتے ہیں تو ہمارے ضمیر کو مرے عرصہ بیت چکا ہوتا ہے۔ پھر ہم اپنے سے بڑی سیٹ پر موجود شخص کے زیر سایہ اپنے سے نیچے والوں کو اپنی اتھارٹی کے تابع کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ یہ سرکل آف لائف اسی طرح سے تو بنتا ہے ۔

ہم سب یہ کہہ کر سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں کہ صاحب یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے “۔

پھر وہ منشی صاحب کی طرف دیکھتے ہیں

۔”میں منشی صاحب کا مشکور ہیں کہ انھوں نے اپنے ذاتی تجربہ سے ہمیں فیض یاب فرمایا لیکن یا د رکھیئے ریسرچ بھی کہتی ہے کہ ابھی بھی 40 سے 50 فیصد لوگ اتھارٹی کے خلاف ڈت کر کھڑے ہوسکتے ہیں “۔

ایک مرید نے پوچھا کہ جناب یہ اتھارٹی کبھی کسی صحیح کام کے لئے بھی استمعال ہوئی ہے۔ تو بابا جی نے آنکھیں بند کر کے کچھ دیر مراقبہ میں چند گہری سانسیں لیں اور پھر اپنے کشکول میں ہاتھ ڈال کر آئی پیڈ2 نکالا ۔ تھوڑی دیر تک وہ اس پر انگلیا ں چلاتے رہے اور پھر بولے

۔”بیٹا!پاکستان میں ایسی مثالیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ جیسے کہ اسلام آباد میں ٹریفک پولیس کا نیا سسٹم، نادرا کے آفس میں ڈیجیٹل اندراجات کی فراہمی، اور ہائر ایجوکیشن کمیشن،یہ چند درخشندہ مثالیں ہیں جن میں اتھارٹی کوکچھ حد تک صحیح طور پر استعمال کیا گیا ہے“۔

وہی مرید انتہائی سنجیداور عقیدت سےاپنے سوال کے جواب پربابا جی کے شکر گزار ہوئےاور سوال جاری رکھتے ہوئے مرید نے مزید پوچھا۔

۔ ”بابا جی یہ مثالیں آٹے میں نمک کے برابر کیوں ہیں؟“

بابا جی نے اپنی لینز بھری آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور پھر اپنے آئی پیڈ 2 کی طرف اور کہنے لگے ”بیٹا ان معلومات کے حصول کے لئے ہمیں کچھ وقت لگے گا اور ہمارے آئی پیڈ کی بیٹری بھی کم ہے۔ گھنٹے بھر میں چارج کرکے جواب تلاش کریں گے “۔

سب مریدوں کی بابا جی کی طرف امید بھری آنکھیں کسی جواب کی متلاشی تھی، بابا جی سمجھ گئے کہ اب جواب دینا ہی ہو گا ۔ خیر انھوں نے جلدی سے کچھ انگلیا ں چلائی اورانتہائی سنجیدہ اور گہرے لہجے میں کہا

۔”ہمارے ملک میں اتھارٹی کے صحیح استعمال کی طرف اسی لئے زیادہ توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ اکثر اتھارٹیاں اپنے غلط اثرو رسوخ سے ہر نئے آنے والے کو غلط راستے کی طرف لگا لیتی ہیں “۔

ادھربابا جی نے بات ختم کی اور اُدھر منشی جی نے اُسے بابا جی کے فیس بک پروفائیل پر چڑھا دیا۔ اور سب مرید وں نے قطاروں میں بیٹھے ہوئے اپنے اپنے سمارٹ فون نکالے اور بابا جی کے سٹیٹس کو لائک اور شئیر کرنے لگے ۔ ماحول عقیدت بھرے انٹرنیٹ میسجوں سے منور ہوگیا تھا۔

ہمیں حبیب احمد نور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عمر جوانی کی ، قد کاٹھ قریباً چھ فُٹ اور پیٹ ہلکا سا نکلا ہوا۔آج کل یورپ کے ایک سرد ملک فن لینڈ میں عموماً پڑھائی کے نام پروقت ضائع کرتے پائے جاتے ہیں۔ دیگر اشغال میں شاعری ، قلم کاری، سیرو سیاحت اور باورچی جیسے کام شامل ہیں۔استادیاں کے نام سے چھوٹے موٹے قصے کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو زبردستی پڑھواتے رہتے ہیں۔
Facebook
Instagram
Twitter

--

--