Koan — Lying for Good

Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
3 min readMay 7, 2020

اگر کسی شخص کو یہ مرتبہ حاصل ہو جائے کہ بادشاہ اُس کے کہنے پر چلتا ہو اور پھر وہ موقع کی مناسبت سے بھلی بات نہ کہے تو بڑا ظلم ہے، اور ایسے شخص پر صد افسوس ہے

Image Source

بابا جی بادشاہ کے دربار میں بیٹھے تھے۔ بادشاہ نے کسی مجرم کا مقدمہ سننے کے بعد اسے قتل کر دینے کا اشارہ کر دیا۔

مجرم نے اپنی موت کو یقینی دیکھتے ہوئے نا امیدی کی حالت میں بادشاہ کو گالیاں دینا شروع کر دی۔ سپاہی اُسے گھسیٹتے ہوئے دربار سے باہر لے جارہے تھے۔ کیونکہ اسے قتل کے لئے لے جایا جا رہا تھا چنانچہ اُس کے جی میں جو آیا اور جو اُس نے چاہا بلا خوف و خطر تلخی سے کہتا چلا گیا۔

زندگی سے مایوس انسان، بہر صورت زبان دراز ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہاری ہوئی عاجز بلی کتے پر حملہ کر بیٹھتی ہے۔

بادشاہ نے ساتھ بیٹھے درباریوں سے پوچھا کہ یہ قیدی کیا کہہ رہا ہے۔

۔“یہ قسمت کا مارا ہوا قیدی کہہ رہا ہے کہ
۔۔۔۔۔ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔۔۔۔ سورة آلِ عمران”۔

بابا جی نے بادشاہ کو اصل صورتِ حال بتانے سے گریزکرتے ہوئے اُن کا دھیان قرآن کی آیت کی طرف پھیرنے کی کوشش کی۔

بادشاہ بھی ہوشیار تھا بابا جی کا مصلحت انگیز جھوٹ سُن کر بہت خوش ہوا اور اس قیدی کو جسے قتل کرنے کے لئے لے جایا جا رہا تھا، آزاد کردیا۔

بادشاہ کا ایک وزیر بابا جی کا مخالف تھا
۔“دربار میں رہتے ہوئے ہماری ذمہ داری ہے کہ بادشاہ سے ہمیشہ سچ بولیں۔ بادشاہ سلامت! یہ شخص آپ کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ آپ کو گالیاں دے رہا تھا”۔

وزیر نے اس صورتِ حال پر صاف گوئی سے کام لینے کی کوشش کی کہ قیدی دراصل بادشاہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔

بادشاہ نے اپنے وزیر کو غور سے دیکھا۔ وزیر کا رُخ بادشاہ سے بات کرتے ہوئے بابا جی کی طرف تھا۔ بادشاہ معاملے کو بھانپتے ہوئے مخاطب ہوا۔

۔“آپ نے جو سچی بات حسد اور کینے کی بنیاد پر کہی ہے اس کے مقابلہ میں میرے نزدیک نیکی اور بھلائی کی خاطر بولا گیا جھوٹ بہتر ہے”۔

ماخوذ ۔ گلستان

Next | Previous

ہمیں حبیب احمد نور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عمر جوانی کی ، قد کاٹھ قریباً چھ فُٹ اور پیٹ ہلکا سا نکلا ہوا۔آج کل یورپ کے ایک سرد ملک فن لینڈ میں عموماً پڑھائی کے نام پروقت ضائع کرتے پائے جاتے ہیں۔ دیگر اشغال میں شاعری ، قلم کاری، سیرو سیاحت اور باورچی جیسے کام شامل ہیں۔استادیاں کے نام سے چھوٹے موٹے قصے کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو زبردستی پڑھواتے رہتے ہیں۔
Facebook | Instagram | Twitter

One clap, two clap, three clap, forty?

By clapping more or less, you can signal to us which stories really stand out.

--

--