Lucifer Effect

Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
4 min readJul 8, 2019
image source

بیگم آپ کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد مجھے اپنے نئے دوستوں سے ملنے جانا پڑے گا”۔”

مظہر نے گاڑی گھر کی طرف موڑتے ہوئے کہا۔ مظہر کی فارن بیگم کے سفید گال ہلکے سے سرخ ہوگئے اور اس نے پسنجر سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنا رخ مظہر کی جانب موڑدیا

“مظہر آپ کب تک ان کالج کے لونڈوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے رہیں گے۔ میں آپ کو پچھلے کئی سالوں سے یہی کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ ہر سال آپ کچھ نئے دوست بنا لیتے ہیں، اور پھر آپ کی شامیں انھیں کے ساتھ کبھی کرکٹ کھیلنے میں اور کبھی تاش کی رنگ بازی میں گزر جاتی ہیں”۔

“اوہ میری جان ! یہ اپنے یار لوگ ہی تو ہیں۔ کچھ نئے کچھ پرانے۔ بیگانے ملک میں پڑھائی کی خاطر اور اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں سارا دن خوار ہوتے رہتے ہیں۔ اب ان چھوٹی موٹی چیزوں کے ساتھ اگر میں ان سے ٹچ میں رہتا ہوں اور ان کی کسی مشکل کو سن لیتا ہوں تو انھیں اکیلا پن محسوس نہیں ہوتا اور مجھے بھی کچھ سکون آرام ملتا ہے”

بات ختم ہوتے ہی گھر آ گیا اور بیگم نے مظہر کی بات کو ان سنی کر کے گاڑی کا دروازہ کھولا باہر نکل کر سیٹ آگے کی اور شاپنگ بیگ اٹھا کر سلام دعا کیے بغیر گھر کے اندر چلی گئی۔ مظہر نے بھی منہ بناتے ہوئے گاڑی موڑی اور واپس سڑک پر آ گیا

ابھی مظہر پہلے سگنل تک ہی پہنچا تھا کہ بیگم کا واٹس ایپ پر میسج آ گیا۔

“اب آپ کی جاب نہیں ہے، اور آپ کے پاس سوچنے کو کچھ مہینے ہیں۔ تو بہتر ہو گا کہ اپنی جاب پر فوکس کےساتھ ساتھ دوستیا ں بھی بدلیں” ،

ابھی پہلا ہی پڑھا تھا، کہ دوسرا میسج بھی آگیا۔

“میں آپ کے کمیونل میسج سے اتفاق نہیں کرتی”۔

مظہر نے فورا میسج کیا

“اوہ جان ! شام کو بات کرتے ہیں۔ اگر میری جان کہتی ہے تو یہیں سے یو ٹرن لے لیتا ہوں”

بیگم نے جوابا میسج بھیجا

“No need”

مظہر نے بھی گاڑی نہیں موڑی، وہ پرانے گیتوں کے سر میں نئی دوستیوں کی طرف ہو لیا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور فون پر علی عمران کا نام چمکا۔

اسے ضرور پیسے چاہیے ہوں گے۔

“!ہیلو مظہر بھائی خیریت سے ہیں ناں ، آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا۔”

“او نہیں یار، بس گاڑی چلا رہا تھا، کیسا ڈسٹرب کرنا، بول میری جان”

“مظہر بھائی، آپ کو تو پتا ہے اتنے عرصے بعد کام سے ہی آپ کو فون کر رہا ہوں”۔

“ہا ہا ہا بول یار! اگر میرے لائق کچھ ہوا تو ضرور کوشش کروں گا”۔

یہ کہتے ہی مظہر کی ٹون ایک خاص انداز میں میٹھی ہو گئی مگر ماتھے پر کچھ بل ضرور آ گئے تھے

“مظہر بھائی! آپ کو تو پتہ ہے اپنا کاروبار چلا رہا ہوں ۔ کچھ پیسوں کی ضرورت تھی، کیا کچھ دنوں کے لئے ۳۰۰۰ ڈالر ادھار مل سکیں گے”۔

مظہر کا شک صحیح ثابت ہوا۔ علی نے پھر پیسوں کے لیے فون کیا تھا۔ علی کی عادت تھی کہ وہ ہر چھ مہینے بعد ایک مہینے کے لیے کچھ پیسے لیتا تھا، اور اسے واپس تو کر دیتا تھا ۔ لیکن کبھی ٹائم پر واپس نہیں کرتا تھا۔ اکثر ایک آدھ مہینہ مزید لگ جاتا تھا۔

“یار میرا اپنا خرچہ کافی ہو گیا ہے۔ تیری بھابھی امریکہ جا رہی ہے اگلے مہینہ، اور میں نے بھی اس کے ساتھ مہینے کا ٹرپ سوچ رکھا ہے، تو بھائی مشکل ہو جائے گا”۔

علی عمران کی جوشیلی آواز میں ہلکی سی ناامیدی ابھر آئی

“اچھا مظہر بھائی! کوئی بات نہیں لیکن پھر بھی اگر کچھ ہو سکے تو ضرور بتایئے گا”

“ضرور میری جان! اور سب ٹھیک ہے”

“جی مظہر بھائی! اللہ کا شکر، چلیں میرے ٹاؤن کا چکر لگے تو بتائے گا”۔

مظہر نے اسی کے ٹاؤن کی طرف گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔

“ ضرور”

اختتامی علیک سلیک کرتے ہوئے آخری سگنل آگیا۔ مظہر نے فون رکھتے ہی واٹس ایپ میں سکرٹ ڈیرے کا گروپ کھولا جہاں پچھلے دو مہینے سے کسی نے میسج نہیں کیا تھا۔ اس نے چار لفظ لکھ کر انٹر کر دیے اور اس کے چار لفظوں نے جیسے گروپ میں جان پیدا کردی

“Ali Alert 3000 BC”

ہمیں حبیب احمد نور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عمر جوانی کی ، قد کاٹھ قریباً چھ فُٹ اور پیٹ ہلکا سا نکلا ہوا۔آج کل یورپ کے ایک سرد ملک فن لینڈ میں عموماً پڑھائی کے نام پروقت ضائع کرتے پائے جاتے ہیں۔ دیگر اشغال میں شاعری ، قلم کاری، سیرو سیاحت اور باورچی جیسے کام شامل ہیں۔استادیاں کے نام سے چھوٹے موٹے قصے کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو زبردستی پڑھواتے رہتے ہیں۔

Facebook
Instagram

--

--