Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
Sent as a

Newsletter

5 min readApr 15, 2022

--

Seeing is Believing

Read more on Ustaadian.com

بہتر فارمیٹنگ کے ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

ہماری سیاسی پارٹی حکومت میں ہے۔ اور ہمارے شہر میں ہمارے ہی کارکن ، اب مخالف سیاسی پارٹی کے ردعمل اور رویوں سے سخت پریشان ہو رہے ہیں۔ آئے دن وہ کبھی مین شاہراہ کو زبردستی روک دیتے ہیں، تو کبھی ہسپتالوں پر حملہ کر کے دوائیاں لوٹ لیتے ہیں اور مریضوں کو۔۔۔ منسٹر صاحب نے ڈرامائی وقفہ دیا۔

مریضوں سے پوچھتے ہیں، کس پارٹی کے ہو، اور اگر وہ ہماری پارٹی کا نام لے لیں تو کتے کی طرح دھلائی کرتے ہیں۔ چئیرمین صاحب کچھ کیجئے،۔۔۔ ہمیں اس کا پورا پورا جواب دینا ہو گا۔ منسٹر نے التجائیہ انداز میں اپنی بات مکمل کی

بالکل۔۔۔ ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہو گا۔ چئیرمین صاحب نے جب یہ کہا تو سارے منسٹر ہاتھ اونچا کر کے اُن کا ساتھ دینے لگے۔

آپ سب میرے ساتھ ہیں؟ چئیرمین صاحب نے ہاتھ گھما کر اشارہ کیا۔

ہم آپ کے ساتھ ہیں سب یک زبان بولے

اچھا!۔۔۔ اب مجھے یہ بتاؤ،۔۔۔ اس سارے ایکشن کو میرا کون سا جانباز لیڈ کرے گا۔ چئیرمین صاحب نے کہا۔

مجمعے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔

کچھ لمحے خاموشی کو دیکھ کرایک 76 سالہ بزرگ سیاسی شخصیت جنھیں سب عقیدتا شاہ صاحب کہتے تھے، آگے بڑھے۔
چئیرمین صاحب!۔۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی خدمات اس کام کے لئے حاضر کرتا ہوں۔ شاہ صاحب نے کہا

چئیر مین صاحب بہت خوش ہوئے۔

کتنے آدمی چاہئیے، ہم لائن لگا دیں گے آدمیوں کی آپ کے پیچھے۔ پولیس، شہر، بلکہ کپیٹل کی پوری سپورٹ آپ کو ملے گی۔۔۔۔ اگر ضرورت پڑی تو فوج کو بھی لے آئیں گے۔۔۔ چئیرمین صاحب نے کہا۔

اس کا اندازہ ابھی لگانا مشکل ہے، کیونکہ مجھے اصل صورتِ حال کا علم نہیں۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کرہی وہاں کے حالات کے بارے میں کچھ یقین سے کہہ سکوں گا۔ . آپ مجھے خود جا کر اُس جگہ کا معائنہ کرنے دیں۔ میں پھر آپ کو پوری طرح بتا سکوں گا شاہ صاحب بولے۔

چئیرمین صاحب نے اجازت دے دی۔ شاہ صاحب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ فوج کے جاسوسی ادارے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے گزارا تھا۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح سے علم تھا کہ بات سے بات نکل کر کیسے بتنگڑ بنتی ہے۔

انھوں نے اگلے دو ہفتے میں خود عملی طور پر پورے علاقے کی جاسوسی کی۔

دو ہفتے بعد جب سب منسٹر اس معاملے پر اکٹھے ہوئے تو شاہ صاحب نے اپنی رائے پیش کی۔

میری اطلاع کے مطابق ہماری مخالف جماعت اتنی آرگنائز نہیں ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں جتنے بھی احتجاج ہوئے وہ یا تو ہاسپٹل کے اردگرد ہوئے یا مین شاہراہ میں ہوئے۔ سب سے پہلے ہم ہاسپٹل اور شاہراہ کے اردگرد سکیورٹی بڑھائیں گے۔ اگر ہم یہاں اپنی سکیورٹی سخت کردیں گے، اور اس بات کا خیال رکھیں کہ شاہراہ پر ہمارے سکیورٹی بڑھانے سے ٹریفک نہ رُکے تو ہم اُن کے بیشتر حملوں کو ناکام کر سکتے ہیں۔ شاہ صاحب نے کہا

شاہ صاحب نے تو بس سکیورٹی ٹائٹ کرنے کی بات کی۔ چئیرمین صاحب اور اُن کے حواری تو مرنے مارنے کی باتیں کر رہے تھے، شاہ صاحب نے انھیں قائل کرنے کے لئے سکیورٹی بڑھانے کے دس فائدے اور مخالف پارٹی پر حملہ کرنے کے دس نقصانات بتا کر سب کو قائل کرنے کی کوشش کی۔

شاہ صاحب کی باتوں کو سن کر 12 میں سے ایک 2 وزیر اُن کی طرف آگئے، لیکن پلڑا ابھی بھی سخت ردعمل کرنے کی طرف بھاری تھا۔ دو گھنٹے کی میٹنگ پانچ گھنٹے پر پہنچ گئی تھی۔ چئیرمین صاحب کو ایک انتہائی ضروری کال کے لئے کمرے سے باہر جانا پڑا۔ انھوں نے جانے سے پہلے چائے بریک کا سب کو کہہ دیا اور بس چائے بریک کے بعد ہم فائنل بریک ڈائون کریں گے۔ شاہ صاحب ابھی تک صرف 5 لوگوں کو اپنی بات سے متفق کر سکے تھے۔

چائے کی بریک کے دوران شاہ صاحب نے اپنے بزرگ سے دعا اور مشورہ لینے کے لئے فون کیا۔ بزرگ اس وقت اپنے خاص مریدوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ بزرگ نے فون پرسکھر کے ڈی آئی جی اپنے علاقے میں بڑھتی ہوئی ڈکیٹیوں سے کافی پریشان تھے۔ آئے دن انھیں شکارپور، لاڑکانہ، ںوشہرو فیروز اور سکھر ڈسٹرکٹ سے ڈکیٹیوں، اغواء برائے تعوان، اور ڈاکوئوں کے پولیس پر حملے کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ ڈاکو اکثر کہیں سے نمودار ہوتے، پولیس پر حملہ کرتے، یا کسی غریب کو لوٹتے اور فورا غائب ہو جاتے تھے۔

پچھلے ہفتے گائوں ملا اسماعیل کھوڑو میں انھیں ڈاکوئوں نے ایک خاندان پر راکٹ لانچر سے حملہ کر کے تین لوگوں بشمول ایک چھوٹی بچی کو ہلاک کر دیا تھا۔ ڈی آئی جی صاحب نے ڈاکوئوں کو اسی حملے کا جواب دینے کے لئے آج کی میٹنگ بلائی تھی۔ میٹنگ میں بیٹھے سبھی لوگوں کی رائے

Shikarpur, Larkana, Naushahro Feroze and Sukkur districts

اپنے دور میں شمالی سمت سے ملہاری قبیلہ سے سخت تنگ تھے۔ وہ اکثر اچانک ہی کہیں سے نمودار ہوتے اور لوگوں پر حملہ کر کے جنوبی سمت پنجاب میں غائب ہو جاتےتھے۔

راجہ نے ملہاریوں کو جواب دینے کی سوجھ بوجھ کے لئے دربار بلایا۔ راجہ کے سب وزیرملہاریوں پر بھرپور حملہ کرکے اُن کی کمر توڑنے پر متفق تھے۔ لیکن جب راجہ نے پوچھا کہ کون آگے بڑھ کر ہمارے فوجی دستے کی رہنمائی کرے گا، تو کوئی آگے ہی نہیں بڑھا۔

ایک 76 سالہ بزرگ جنرل انتہائی ادب سے آگے بڑھا، اور اُس نے جاسوسی کی نیت سے شمال مغربی علاقے میں جانے کی اجازت مانگی۔

راجہ بزرگ کی بات سُن کر بڑے خوش ہوئے

بابا جی! جتنے سپاہی چاہیں،۔۔۔ ہم آپ کے پیچھے کھڑے کر دیں گے۔ اسلحے اور راشن کے انبار لگا دیں گے۔ بس ہمیں حکم کریں۔۔

راجہ بزرگ کے شاگرد بھی تھے، اور اُن کی بہت عزت کرتے تھے۔

تیرا دھیان کدھر ہے؟

تیرا دھیان کدھر ہے؟ کھٹے میٹھے طنز و مزاح سے بھرپور مضامین کا مجموعہ جو آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ بچار کا سامان بھی مہیا کرے گا۔

دیئے گئے لنک پر کلک کرکے ابھی کتاب آرڈر کریں

میرا قصّہ

کتابیں

اگلے ہفتے پھر حاضر ہوں گے ایک نئی کہانی کے ساتھ

اجازت دیجئیے گا

حبیب احمد نور

ہر ہفتے نیوز لیٹر حاصل کرنے کے لئے اپنا ای میل
پر رجسٹر کروائیں۔ ustaadian.com

اگر آپ لطف اندوز ہوئے ، تو اس نیوز لیٹر کو ٹویٹر ، فیس بک ، لنکڈ ان ، یا ای میل کے ذریعے شیئر کریں۔

یا نیچے دیئے گئے لنک کو کاپی اور پیسٹ کر کے شیئر کریں

https://mailchi.mp/ustaadian/april-14

--

--