Tees Rupay

Habib Ahmed
Ustaadian
Published in
15 min readJul 11, 2019

تیس روپے

Image Source

گاؤں کی فضا سے تعلق رکھنے والے دیہاتی لوگ صاف گوئی اور سادہ انداز کی اپنی مثال آپ ہوا کرتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا ایک سادہ سا دیہاتی ہسپتال کے بینچ پر بیٹھا کسی کے انتظار میں محو تھا ۔ گندمی رنگت ، لمبا قد ، سفید دھوتی کُرتا پہنے اور سر پر ایک بڑی سی پگڑی رکھے فضلوچھت کی سفیدی کو دیکھے جا رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں بانس کی بنی ، گارے میں لپٹی چھت کو دیکھنے کی عادی تھیں ۔ لیکن نہ جانے کیوں اُسے یہ سفید چھت بڑی مانوس محسوس ہو رہی تھی ۔

فضلو 5 برس کا تھا جب اپنے بیمار ابّا کے ساتھ پہلی بار شہر کے ہسپتا ل آیا تھا ۔ اُس کے ابّا کو ٹی بی تشخیص ہوئی تھی اور وہ علاج کے لیے مہینے میں ایک بار شہر آیا کرتے تھے ۔ اس بار ابّا کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے فضلو ضد کر کے اُن کے ساتھ آیا تھا۔ اُس نے پہلی بار دودھ کی مانند سفید چھت دیکھی تھی ۔

ابّا ! تو ٹھیک ہو جا ! پھر ہم مل کر فصل بوئیں گے اور خوب سارے پیسے جمع کریں گے اور پتہ ہے سب سے پہلے کیا کام کریں گے؟‘‘ فضلو نے چھت کو گُھورتے ہوئے کہا ۔

ابّا نے کھانسی کےدوران فضلو کی بات سنی — تیزی سے سانس لیتے ہوئے کھانسی کی شدّت سے ابّا کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھی ۔ فضلو نے جلدی سے ابّا کو پانی کا گلاس تھمایا ۔ ابا نے ایک دو گھونٹ لیتے ہی اس کی چمکتی اُداس آنکھوں میں دیکھا اور تھوڑا اُٹھ کر کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن گہری سانس لے کر دوبارہ پلنگ پر ڈھےگئے ۔

“ فضلو ! تھوڑا سا سانس تو لینے دے ۔ کھانسی نے صبح سے نڈھال کر رکھا ہے۔ ‘‘ ابّا نے بیڈ پر کمر سیدھی کرتے ہوئے کہا۔

ابّا سُن تو لے” فضلو نے اُمید بھری نظروں سے ابّا کی طرف دیکھا۔ ابّا نے سر کے اشارے سے اُسے اپنی بات جاری رکھنےکا عندیہ دیا۔

ہم اپنے کوٹھے کی چھت ایسی چٹی دودھ جیسی بنائیں گے ‘

فضلو نے ڈرامائی انداز میں اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔ ابّا کے چہرے پر مسکراہٹ کے تاثرات اُبھر آئے ۔

دھت تیرے کی ! باؤلا ہو گیا ہے کیا ۔ یہ سفید چھتیں ، بڑے بڑے مکان ، سارے شہر والوں کے چونچلے ہیں ۔ پُتر ہم جسےغریبوں کی ساری عمرکی کمائی۔۔۔۔۔۔ دو وقت کی روٹی ۔۔۔۔۔ بدن چھپانے کو کپڑے اور ایک کمرے کے مکان کو پورا کرنے میں نکل جاتی ہے ‘‘ ۔ ابا نے کھانسی کو قابو کرنے کی کوشش میں اپنا جملہ مکمل کیا ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اُسے کھانسی کا ایک اور شدید دورہ پڑگیا ۔ کھانسی کی شدّت سے ابّا کی آنکھیں سُرخ ہونے لگیں اور ان میں ہلکا ہلکا پانی نظر آنے لگا ۔ چہرے پر جھریوں اور نسوں کے اُبھار نے ابّا کے چہرے پر سخت تناؤ پیدا کر دیا تھا ۔ فضلو بے چین ہو کر آتی جاتی نرسوں کی طرف دیکھنے لگا ۔ کہ شاید ان میں سے کوئی ابّا کی کھانسی سُن کر اُن کی طرف متوجہ ہوجائے۔

فضلو کے اگلے دو دن اسی طرح ابّا کی شدید کھانسی کے بعد لمبے لمبے سانس ، پھرکھانسی اور لمبے لمبے سانس دیکھتے گزری ۔ تیسرے دن ابّا انتہائی کمزور دکھائی دے رہے تھے ۔ ان کی تیز چلتی سانسیں مدہم ہوتی چلی گئیں ۔

دوپہر کے وقت سانس لیتے ہوئے سیٹی کی ہلکی آواز آنا بند ہو گئی ۔ فضلو کا ابّا اپنی آنکھیں بغیر جھپکے چھت کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ جیسے اُسے بھی چھت کی سفیدی فضلو کی طرح بھا گئی ہو ۔

آج 52 سالوں بعد اُس کا کوٹھا نیا تھا لیکن چھت وہی بانسوں کے سہارے گارے سے لپٹی ہوئی تھی ۔ صرف گاڈر نئے لگ گئے تھے ۔ فضلو ہسپتا ل کے بینچ پر بیٹھا اوپر لگی سفید چھت کی سادگی میں ڈوبے بڑے ڈاکٹرصاحب کا انتظار کر رہا تھا ۔ اُس کے ساتھ اُس کے بھائی کا لڑکا ارشد آیا تھا جو میٹرک کے امتحان کی تیاری کے لئے شہر آتا جاتا رہتا تھا ۔

فضلو کو آج بھی یاد ہے جب تین سال پہلے بڑے ڈاکٹر صاحب پہلی بار ارشد کے ساتھ گاؤں کی مسجد میں آئے تھے ۔ امام صاحب نے نماز کے بعد نمازیوں کو بڑے ڈاکٹر صاحب سے متعارف کرایا اور سب کو کچھ دیر رک کر اُن کی بات سننے کو کہا ۔ بڑے ڈاکٹر صاحب نےنماز کے بعد بڑی گرم جوشی کے ساتھ سب کے ساتھ مصافحہ کیا اور امام صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ لوگ اپنی سنتیں اور نفل پڑھنے کے بعد ایک ایک کرکے ان کے گرد جمع ہو رہے تھے ۔

امام صاحب نے سب سے پہلے بڑے ڈاکٹر صاحب کے آنے کی وجہ بتائی کہ وہ یہاں ڈاکٹروں کی چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ آئے ہیں جو بچوں کو ویکسین کے قطرے دے رہی ہے اور ان کا فری چیک اپ بھی کررہی ہے ۔ امام صاحب نے سب سے تعاون کی درخواست کی۔

امام صاحب کی بات ختم ہوتے ہی ارشد اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا تا کہ سب لوگ اُسے دیکھ سکیں ۔ “ امام صاحب اور پیارے بھائیو! ڈاکٹر صاحب شہر میں غریبوں کے لیے ایک بڑا ہسپتال تعمیر کروا رہے ہیں جہاں ہم جیسے غریبوں کو علاج کی تمام سہولیات مہیا ہوں گی۔” ارشد نے سب کی نظریں اپنی طرف متوجہ ہوتے ہی کہا۔ یہ سن کر تمام نمازی ما شاءاللہ کہنے لگے۔

امام صاحب نے بھی سب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے نیک نیت ہونے کی تائید کی اور ہاتھ سے سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا ۔

’’ماشاءاللہ جناب! حکم ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا ایسے ہی ہے جیسے پوری انسانیت کی جان بچانا ۔ ڈاکٹر صاحب تو ولیوں والا کام کر رہے ہیں‘‘ فضلو سمیت سب نے یک زبان ہو کر کہا ’’بے شک‘‘۔

’’چاچا فضلو! شہر میں ان کی بڑی وڈی مُہم چل رہی ہے ۔ جس میں مختلف لوگ آ کر اُنھیں ہسپتال بنانے کے لئے مدد کرتے ہیں ۔ ہمیں بھی ان کی مدد کرنی چاہیے ‘ ارشد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔

’’بے شک پُتر۔ کیوں نہیں‘‘۔ فضلو نے ارشد کی ہمّت بندھاتے ہوئے کہا ۔

گو فضلو جانتا تھا کہ ابھی فصل نہیں کٹی اورآج کل زیادہ تر لوگ گھر کا اناج دُکان سے اُدھار پر لے رہے ہیں ۔ خود اُس کی جیب میں 10 روپے تھے جس سے اُس نے ابھی دو ہفتے چلانے تھے ۔ ان حاالات کے باوجود اُس نے صلاح دی کہ سب حسبِ توفیق مغرب کی نماز کے بعد اکٹھا ہوکرہسپتال کے لئے چندہ دیں ۔ امام صاحب نے فضلو کی صلاح کو سراہا اور لوگوں کو قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دینے شروع کیے کہ صدقہ اور خیرات اللہ اور اس کے نبی کا محبوب عمل ہے اور جتنا بھی ہو سکے ہسپتال کے لیے لے آئیں۔

فضلو نماز کے بعد گھر پہنچا تو اُس کی اکلوتی بیٹی جسے پیار سے سب کلّو (کلثوم) کہتے تھے ابّا ابّا کرتی ہوئی آئی اور اُس سے لپٹ گئی ۔ فضلو نے جیب سے ایک فانٹا کی ٹافی نکال کر اپنی بیٹی کو دی جو آتی تو روپے کی چار ہیں لیکن ایک کے ملنے کی خوشی بھی کلّو کے لئے بہت تھی۔

کلّو نے ابا کے گال پر بڑا سا پیار دے کر جھٹ سے ٹافی کھول کر منہ میں ڈال لی ۔ اس نے بڑے مزے سے ٹافی کو اپنے گال کی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف زبان سے گھمانا شروع کردیا ۔ فضلو بڑے پیار سے کلّو کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ فضلو کو اپنی طرف دیکھتا پا کر کلّو نے اپنے ایک گال میں ٹافی کا ابھا ر پیدا کر کےاپنا چہرہ فضلو کی طرف کردیا ۔

’’ابا ۔ ہپّا (ادھر چومئے)” فضلو نے مسکراتے ہوئے اُس کے گال پر پیار کیا ۔ وہ خوشی سے مسکراتی ہوئی اپنے کھلونوں کی طرف بھاگ گئی ۔ فضلو سستانے کے لئے چارپائی پر لیٹا ہی تھا کہ اُس کی بیوی سٹیل کے بڑے سے گلاس میں پانی لے کر اُس کے ساتھ آ بیٹھی ۔

فضلو نے مسکراتے ہوئے اُس سے گلاس پکڑا اور پانی پینے کے بعد دن بھر کے کام کی باتیں کرنے لگ گیا ۔ باتیں کرتے کرتے جونہی اُس نے ہسپتال اور چندے کا ذکر اپنی بیوی سے کیا ۔ بیوی نے اُسکی طرف دیکھا۔

’’ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہسپتا ل کے لئے چندہ دیں ، ہمیں تو خود چندے کی ضرورت ہے‘‘فضلو کی بیوی نے کہا ۔ یہ سنتے ہی غصے سے فضلو کا پارہ چڑھ گیا ۔

’’جدوں خیر کرئیے من فقیر دا بھرئیے‘‘فضلو نے غصے سے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نیک بخت اللہ کی راہ میں دینے سے اور ملتا ہے ۔ نیک بخت ایک روائتی پنجابی عورت تھی ۔

’’نہیں جی تُسی کما لو نیکیاں ، تے سانوں بُھکا مار دیو (ہمیں بھوکا ماردیں) ‘‘نیک بخت نے غصّے میں کہا ۔ وہ فضلو کے ہاتھ سے گلاس چھینتے ہی پیر پٹختے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔ فضلو منہ ہی منہ میں کچھ بُڑبڑاتے ہوئے دوبارہ لیٹ گیا۔

کچھ ہی دیر گزری کہ نیک بخت روٹی کے اوپر تھوڑا سا اچار ڈالے ، ساتھ میں پودینے کی چٹنی سائیڈ میں رکھے اس کے پاس آ بیٹھی ۔ فضلو نے دوسری طرف منہ کر لیا ۔

’’چلی جا نہیں کھانی روٹی میں نے‘‘فضلو نے غصے سے منہ بناتے ہوئے کہا ۔ نیک بخت دوسری طرف سے سامنے آ گئی ۔

’’چل روٹی کھا لے تھوڑی سی ، فیر لڑائی وی کردا رہیں ، دیکھ تیری پسند کی پودنے کی چٹنی بنائی ہے میں نے‘‘نیک بخت نے لُبھانے والے انداز میں کہا ۔ فضلو نیک بخت کے مسلسل اصرار پر بادل ناخواستہ اٹھا اور روٹی کھانے لگا ۔

نیک بخت اٹھ کر گھڑے کی طرف بڑھی اور سٹیل کے پیالے میں پانی لیےفضلو کے سامنے آ بیٹھی ۔ اب وہ ہاتھ میں پنکھا لیے کھانےسے مکھیاں اڑارہی تھی ۔ فضلو نے روٹی کھاتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا اور نیک بخت اپنی بڑی بڑی سرمیلی آنکھوں سے مُسکراتے ہوئے شرما گئی ۔

’’تیرے کو کتنی بار کہا ہے کہ ایسی نظروں سے نہ دیکھا کر ، چل اب منہ کھول‘‘فضلو نے یہ کہتے ہوئے نیک بخت کے منہ میں روٹی کی بُرکی ڈال دی ۔ نیک بخت بڑے پیار سے آہستہ آہستہ بُرکی چبانے لگی ۔

فضلو نے روٹی کھا کرچنگیرایک سائیڈ پر رکھ کر زور سے الحمداللہ کہا ۔ یہ سنتے ہی نیک بخت نے اُٹھ کر برتن سنبھالے اور سامنے کوٹھے میں چلی گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آئی تو اُس کے ہاتھ میں کافی سارے نوٹ تھے ۔ وہ نوٹ اُس نے بڑے پیار سے موڑ کر فضلو کی طرف کر دیے ۔ فضلو نے فرطِ جذبات میں نیک بخت کی طرف دیکھا ۔

محبت کے شفاف جذبے نے آنکھیں دونوں طرف نم کر دیں تھیں ۔ نیک بخت کا آنکھوں سے بولتا ہوا

مسکراتا چہرہ دُھندلا دکھائی دینے لگا ۔ اورپھر بہت دور سے نیک بخت کی آواز میں کچھ جملےاس کے کانوں میں سنائی دینے لگے ۔ ’’یہ پیسے۔۔۔ ہسپتال کے چندے واسطے۔۔۔۔ لے جا۔۔۔۔میں نے۔۔۔‘‘

فضلو انھیں سوچوں میں گم تھا کہ اچانک ہی اُسے ساتھ بیٹھے ارشد نے ہلکا سا جھنجھوڑ کرسامنے سے آتے ہوئے بڑے ڈاکٹرصاحب کی طرف اشارہ کیا۔

بڑے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت انتہائی پُروقارتھی ۔ وہ اپنی آنکھوں پر مستطیل شیشوں کی چھوٹی سی عینک لگائے ، سفید اوور کوٹ پہنے اور گلے میں سٹیتھوسکوپ لیے دروازہ کھول کر ہال میں داخل ہورہے تھے۔

فضلو کو دیکھتے ہی انھوں نےانتہائی نفیس انداز میں اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔ فضلو نے انتہائی انکساری سےبڑے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا ۔ اسی لمحے اسے اپنے اندر ایک بے چینی سے محسوس ہونے لگی ۔ بڑے ڈاکٹر صاحب نے سلام دُعا کے بعد فضلو اور ارشد کو اپنے کمرے میں بلا لیا ۔

ڈاکٹر صاحب کا گرم جوشی سے ہاتھ ملانا ہی فضلو کو پگھلا چکا تھا ۔ کمرے میں چپ چاپ آ کر وہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اس کی آنکھوں کے آگے ملگجی شبنم بڑے ڈاکٹر صاحب کے سراپے کو دُھندلا کرنے لگی تو ایک چہرہ پھول کی پتی کی طرح اُن شبنمی قطروں میں نکھر کر اُس کی آنکھوں کے سامنے اُبھرا ۔ ایک درد کی ٹیس سی اٹھی اور درد کی کیفیت نے فضلو کی آنکھیں بند کر دیں اور جو بادل برسنے کو تھے وہ واپس لوٹ گئے ۔

فضلو کے کانوں میں دور سے قریب آتی ہوئی ارشد کی آواز سنائی دی جو ڈاکٹر صاحب کو دوبارہ فضلو کا تعارف کروا رہا تھا ۔ ارشد ڈاکٹر صاحب کو بتا رہا تھا کہ چاچا فضلو آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب ابھی ابھی ایک طویل آپریشن کر کے لوٹے تھے ۔ تھکاوٹ ان کے چہرے سے نظر آ رہی تھی ۔ لیکن ارشد کے تعارف کے بعد وہ اُنھیں نہ نہیں کہہ سکے ۔ ڈاکٹر صاحب کو فضلو کا چہرے دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ انتہائی مشکل میں ہے اور اُنھیں اس کی بات ضرور سُننی چاہیے۔

بڑے ڈاکٹر صاحب نے آرام سے اپنی سیٹ پر ٹیک لگائی اور فضلو کو چائے کا پوچھا ۔ فضلو نے شکریہ کے ساتھ اُن کو تکلّف نہ کرنے کی گزارش کی ۔

’’میں آپ کا ابھی دو منٹ میں معائنہ کرتا ہوں‘‘بڑے ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔ اُن کی بات سن کر فضلو جو کہیں کھویا ہوا تھا چونکا ۔’’بڑے ڈاکٹر صاحب! آپ کو شاید یاد نہ ہو آپ ایک بار ہمارے گاؤں آئے تھے۔۔۔۔۔ جی۔۔۔ کوئی تین سال پہلے ۔ سارے گاؤں نے مل کرآپ کے بڑے ہسپتال واسطے 183 روپئے اکٹھے جمع کیے تھے ! ‘‘فضلو ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

اس کی آواز مدہم سی تھی جیسے کہیں دور سے کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ ڈاکٹر صاحب سیدھے ہوکر بیٹھ گئے ۔ انھیں فضلو کی آوازمیں درد کےساتھ تھوڑا احسان جتوانا بھی محسوس ہوا تھا ۔

’’جی بالکل‘‘بڑے ڈاکٹر صاحب نے فضلو سے اپنے جذبات چھپاتے ہوئے مطمئن انداز سےکہا ۔

فضلو نے اُن کے اثبات کو دیکھ کر اپنی بات جاری رکھی”آپ نے ہم سے ہسپتال سے متعلق وعدے کیے تھے ۔ آپ کو یاد ہو گا سب نے آپ کو کتنی دُعائیں دیں تھیں-” فضلو نے کہا ۔

بڑے ڈاکٹر صاحب نے شکریہ میں سر ہلایا ۔

“مجھے آج بھی آپ کی لاؤڈ سپیکر میں گونجتی ہوئی آواز لفظ بہ لفظ یاد ہے ۔ میں نے وہی جملے سنا کر کافی گاؤں والوں کو چندے کے لیے راضی کیا تھا۔”

فضلونے کہا۔ اور پھر وہ میکینکی انداز میں ڈاکٹر صاحب کے جملے دُہرانے لگا ۔

’’ کتنے بچوں کو ایکسیڈنٹ کے بعد ابتدائی طبی امداد نہیں ملی ۔ آپ میں وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جن کی بیویا ں بچے کو جنم دیتے ہوئے گھروں میں فوت ہو گئیں ۔۔۔۔ وہ لوگ بھی ہوں گے جن کے بو ڑھے والدین وقت پر مرض کی تشخیص نہ ہونے کے باعث گزر گئے ۔ ملیریا ، نمونیا اور معدے کی بیماریاں کتنے ہی بچوں کی جانیں لے گئیں اور گھروں کو خالی کر گئیں ۔۔

اکثر مرض کا صحیح وقت پر علاج نہ ہونے کے باعث علاج کا دورانیہ طویل ہوجاتا ہے اور وہ علاج بیمار کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے لیے بھی مصیبت کا سامان بن جاتا ہے”

فضلو یہ کہہ کر ایک پل کے لیے رُکا ۔

“جو وقت ۔۔۔۔ آزمائش میں گزر گیا ۔۔۔۔ اُسے کوئی واپس نہیں لا سکتا ۔۔۔۔۔ لیکن آپ میں جن جن کو میری آواز پہنچ رہی ہے اُنھیں میں اُمید دلاتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں کی دُعائیں ساتھ رہی تو بہت جلد آپ کی سہولت کے لئے ایک ہسپتال تعمیر کیا جائے گا جس سے آپ سب مُستفید ہوں گے‘‘فضلو نے کہا ۔

ڈاکٹر صاحب کو فضلو کے گاؤں میں کی ہوئی تقریر یاد آ گئی ۔ وہ فضلو کی دیکھ کر طرف مسکرائے۔

’’دیکھیے! ہم نے وعدہ پورا کیا ۔ آج آپ اُسی ہسپتال میں بیٹھے ہیں اور یہ آپ لوگوں کی ہی خدمت کر رہا ہے ‘‘- بڑے ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔

یہ سن کر فضلو کی آنکھوں پُر نم ہوگئی ۔ اس نے گلے میں آنسوؤں کا گھونٹ بھرا۔

’’میں نے آپ کے ہسپتال کے لئے کچھ روپے دیے تھے ۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ اگر آپ وہ مجھے واپس کر دیں‘‘فضلو نے بے چارگی سے کہا ۔

ڈاکٹر صاحب فضلو کوحیرت سے دیکھ رہے تھے ۔

’’ڈاکٹر صاحب سارے گاؤں کے پیسے تو میں نہیں مانگ سکتا ۔ آپ صرف میری رقم واپس کر دیں‘‘فضلو نے کہا ۔

بڑے ڈاکٹر صاحب نے ارشد کی طرف کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں دیکھا ۔ ارشد سر نیچے کیے افسردگی کے عالم میں اپنے جوتوں کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ کمرے میں کچھ دیر کے لیے مکمل خاموشی چھائی رہی ۔

’’آپ صرف میری رقم واپس کر دیں ۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی‘‘فضلو نے بڑی ہی عاجزی سے پھر گُزارش کی ۔

ڈاکٹر صاحب اُٹھ کر فضلو کی طرف بڑھے اور اُس کے کندھے پرشفقت سے ہاتھ رکھ دیا ۔

’’فضلو تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے ۔ بتاؤ کتنی رقم چاہیے میں شاید تمھاری مدد کر سکوں ۔ تم میری مشکل میں کام آئے تھے ۔ میں بھی جتنا ہو سکا ضرور کوشش کروں گا کہ تمھاری مدد ہو سکے ‘‘ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔

ڈاکٹر صاحب کی بات سنتے ہی فضلو نے اپنا سر نفی میں ہلایا ’’نہیں ڈاکٹر صاحب ۔ جدوں خیر کرئیے من فقیر دا بھرئیے ۔ مینوں بس میری رقم واپس کر دیو ‘‘ فضلو نے کہا ۔

ڈاکٹر صاحب نے بڑے تحمّل سے فضلو کی طرف دیکھا ’’وہ رقم توہسپتال کے اکاؤنٹ میں ملتے ہی جمع کرا دی تھی ۔ اگر آپ بُرا نہ منائیں تومجھے اپنی پریشانی سے متعلق کھل کر بتا سکتے ہیں ؟ ‘‘بڑے ڈاکٹر صاحب نے کہا۔

فضلو نے ڈاکٹر صاحب کے پُر شفیق چہرے کی طرف دیکھا

’’بڑے ڈاکٹر صاحب! میں ایک نئے ہسپتال کے واسطے چندہ جمع کر رہا ہوں‘‘فضلو نے کہا۔

ڈاکٹر صاحب نے فضلو کو سر سے پیر تک دیکھا اور پھر وجہ جاننے کے لئے بولے ’’چلو یہ تو اچھی بات ہے لیکن پھر مجھ سے پرانے ہسپتا ل کا چندہ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ “ ۔ فضلو نے انتہائی کربناک نظروں سے اُن کی طرف دیکھا ۔

’’ڈاکٹر صاحب! اوہ بڑے کرماں والے پیسے تھے! میری بیوی نے چڑھتے سورج کے نیچے 5 دن دھان کی فصل کاٹی تھی ۔ جی! اور روزانہ کی کمائی سے چوری چھپے پیسے جمع کرتی تھی ، ہم نے اسی میں سے کچھ پیسے آپ کے ہسپتال کو چندہ کے طور پر دیے تھے ۔ نیک بخت کہتی ہے کہ ڈاکٹرصاحب سے وہ پیسے واپس لے کر آ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب اب کچھ پریشان دکھائی دے رہے تھے ۔ فضلو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! وہ اب ضد لگائے بیٹھی ہے کہ ! ہم اب اپنا ہسپتال بنائیں گے ۔

بڑے ڈاکٹر صاحب نے جو ہسپتال بنایا ہے ۔۔۔۔ اوہ تو بڑا دور ہے جی ۔ ماں واری جاوے ! ساری رات کلّو (کلثوم) روتی رہی کہ اما ں ڈھیڈھ (پیٹ) وچ درد ہے ۔ بخشو کے تانگے پر۔۔۔ ہر کھڈے پر۔۔۔ دل چیرچیخ مارتی تھی میری بچی ۔ نیک بخت مجھے بار بار یاد دلاتی ہے کہ کیسے کلّو کا سر اس کی گود میں تھا ۔ ہسپتال کے راستے میں ابھی آدھا راستہ بھی نہیں پورا ہوا تھا کہ کلّو نے آخری چیخ کے بعد ایک بڑا سا سانس لیا تھا ۔۔۔ اور پھر۔۔۔ اور پھر‘‘ فضلو کی آواز اُسکے گلے میں آنسوؤں سے رُندھ گئی ۔

ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بھی پانی چمکنے لگا ، اولاد کی جدائی سے ان کی بھی آشنائی تھی ۔

۔’’ڈاکٹرصاحب! جھلی ہے وہ ، کہتی ہے وڈے ڈاکٹر صاحب نے غریباں واسطے وڈا ہسپتال توبنا لیا ۔۔۔ لیکن وہ تو ۔۔۔ شہر دے غریباں واسطے بنایا ہے ۔ ہم گاؤں کے غریباں واسطے اک چھوٹا سا ہسپتال بنائیں گے ۔ جا میری بچی دے پیسے وڈے ڈاکٹر صاحب سے لے کر آ۔‘‘ فضلو نے کہا ۔ وہ اب سر اوپر کیے خالی آنکھوں سے ہسپتال کی اُسی سفید چھت کو گُھورے جارہا تھا اور بولے جا رہا تھا ۔

۔’’میں نے اُسے سمجھایا بھی کہ ہسپتال کے لیے بڑا پیسہ چاہیے ہوتا ہے لیکن وہ کہتی ہے ڈاکٹر صاحب! کہ اگر ہسپتال نہیں بنایا تو فیکے قصائی کی گاڑی خرید لیں گے ۔ جو اگلی بار کلثوم کے پیٹ میں درد ہوئی تو فیکے کی گڈی اُسے فوراً ہسپتال لے جائے گی ۔۔۔۔ اور پھر وہ کلّو، کلّو کرتی رہتی ہے ۔ اور مجھے بار بار کہتی ہے کہ جا ! وڈے ڈاکٹر سے میری کلّو کے پیسے لے آ‘‘ یہ کہتے ہی فضلو رونے لگ گیا ۔

ڈاکٹر صاحب کے آنسو بھی آنکھوں میں چمکنے لگے فضلو کو ڈاکٹر صا حب کی آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آوازدور سے آتی ہوئی سنائی دی ۔ ’’فضلو! کتنے پیسے ہیں ۔۔ ؟”

فضلو نے نیک بخت کے ہاتھوں سے پیسے لے لیے ۔ وہ ایک ایک روپے کے کافی سارے نوٹ تھے ۔ اُس نے مسکرا کر نیک بخت کو دیکھا اور نوٹ گننے شروع کر دیے ۔

“یہ پیسے ہسپتال کے چندے واسطے لےجا ۔۔ میں نے پورے 5 دن فیکے قصائی کی دھان کی فصل کاٹی تھی ۔ اور روزانہ تیرے سے چھ روپے چھپاتی تھی ۔ اس بار بڑے میلے پر کلّو کے لیے گڑیا لینی تھی ۔ پچھلی باری دیکھ کر آئی تھی ۔ پورا سال میرا سر کھاتی آئی ہے “ نیک بخت کی بات سنتے ہوئے فضلو نے کلّو کی طرف دیکھا ۔ ایک لمحے کے لیے اُس کے جیب میں جاتے ہوئے ہاتھ رک سے گئے ۔ لیکں پھر اس نے اپنے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے سامنے پدرانہ شفقت کا گلا گھونٹ دیا ۔ نیک بخت اُسے جیب میں پیسے ڈالتے دیکھ کر پھر بولی ۔

(۔ سنبھال کے لے جاویں ۔ میری کلّو کے پور ے تیہ (تیس) روپے ہیں تیہ (تیس “

ہمیں حبیب احمد نور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عمر جوانی کی ، قد کاٹھ قریباً چھ فُٹ اور پیٹ ہلکا سا نکلا ہوا۔آج کل یورپ کے ایک سرد ملک فن لینڈ میں عموماً پڑھائی کے نام پروقت ضائع کرتے پائے جاتے ہیں۔ دیگر اشغال میں شاعری ، قلم کاری، سیرو سیاحت اور باورچی جیسے کام شامل ہیں۔استادیاں کے نام سے چھوٹے موٹے قصے کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو زبردستی پڑھواتے رہتے ہیں۔
Facebook
Instagram
Twitter

--

--