Koan — Time to die
لوگ آخر میں مر کیوں جاتے ہیں؟
بابا جی بچپن سے ہی بڑے ہوشیار تھے۔ ایک دن وہ اپنے استاد کے گھر کچھ لوگوں کی مہمان نوازی کر رہے تھے ۔ کچن سےچائے کی پیالیاں ٹرے میں لاتے ہوئے اُن کا دھیان بھٹکا اور دروازے سے ٹھوکر کھا کر گر پڑے۔
یہ پیالیاں بہت نایاب تھیں جو اُن کے استاد کو ورثہ میں ملی تھیں۔
بابا جی نے اپنے پیچھے اُستاد کے قریب آنے کی آواز سُنی، اُنھوں نے بڑے دھیان سے ساری کرچیاں اپنے سامنے اکٹھی کر لیں۔ جب استاد قریب پہنچے تو بابا جی نے سوال کیا۔
“لوگ آخر میں مر کیوں جاتے ہیں؟”
استاد نے سوال سُن کر جواب دیا۔
“یہ فطری عمل ہے، ہر ایک شے کی مدتِ حیات ہے، اور بالآخر سب نے ختم ہو جانا ہے۔”
بابا جی مُڑے اور اپنے ہاتھوں میں ٹوٹی ہوئی پیالیاں استاد کو دکھاتے ہوئے بے چارگی سے بولے
“آپ کی پیالیوں کے مرنے کا وقت آ گیا تھا۔”
Next | Previous
ہمیں حبیب احمد نور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عمر جوانی کی ، قد کاٹھ قریباً چھ فُٹ اور پیٹ ہلکا سا نکلا ہوا۔آج کل یورپ کے ایک سرد ملک فن لینڈ میں عموماً پڑھائی کے نام پروقت ضائع کرتے پائے جاتے ہیں۔ دیگر اشغال میں شاعری ، قلم کاری، سیرو سیاحت اور باورچی جیسے کام شامل ہیں۔استادیاں کے نام سے چھوٹے موٹے قصے کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو زبردستی پڑھواتے رہتے ہیں۔
Facebook | Instagram | Twitter
One clap, two clap, three clap, forty?
By clapping more or less, you can signal to us which stories really stand out.